Maktaba Wahhabi

88 - 241
انھوں نے جواب دیا: ’’نہیں، اللہ کی قسم! میری رائے وہ نہیں جو ابوبکر نے ظاہر کی ہے۔ میری رائے تو ان قیدیوں کے متعلق یہ ہے کہ مجھے فلاں قیدی پر اختیار دیجیے تو میں اس کی گردن مار ڈالوں۔ عباس کو حمزہ کے سپرد کیجیے، وہ اس کی گردن اڑا دیں۔ عقیل کو علی کے حوالے کیجیے کہ وہ اس کا سر تن سے جدا کر ڈالیں تاکہ پتہ چل جائے کہ کافروں کے لیے ہمارے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ یہ سب کافروں کے سردار اور ان کے قائدین ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور آپ نے اسی کے موافق فیصلہ کیا۔[1] اگلی صبح حضرت عمر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی حاضر خدمت تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے بتایئے، آپ دونوں کیوں رو رہے ہیں۔ اگر رونے کی بات ہے تو میں بھی روؤں ورنہ آپ کو روتا دیکھ کر ہی آنسو بہاؤں۔‘‘ فرمایا: ’’تمھارے ساتھیوں نے یہ رائے دی تھی کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کردوں، وہی بات رلاتی ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے عذاب دکھایا گیا ہے، اس درخت سے بھی زیادہ قریب کرکے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کرنے کے متعلق یہ آیات نازل فرمائی تھیں: ﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ، لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
Flag Counter