Maktaba Wahhabi

75 - 241
پر فائز ہوئے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ان کے بچھڑنے کا بے حد غم تھا۔ آپ ہمیشہ کہا کرتے: ’’جب بھی بادِ صبا چلتی ہے، مجھے زید کی خوشبو آتی ہے۔ وہ دو نیکیوں میں مجھ پر سبقت لے گیا۔ وہ مجھ سے پہلے اسلام لایا تھا اور مجھ سے پہلے شہید ہوا۔‘‘ [1] عمران عبدی کے والد کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں صبح کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد وہ مسجد سے نکلنے لگے تو ایک پستہ قد آدمی سے ملاقات ہوئی جو ایک آنکھ سے کانا تھا۔ اس نے کمان کندھے پر لٹکا رکھی تھی۔ ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ متمم بن نویرہ ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ذرا وہ شعر تو سناؤ جو تم نے اپنے بھائی کے مرثیے میں کہے تھے۔ متمم بن نویرہ نے حسبِ ارشاد یہ شعر پڑھے: وَکُنَّا کَنَدْمَانَي جُذَیْمَۃَ حِقْبَۃً مِنَ الدَّھْرِ، حَتّٰی قِیلَ لَنْ یَتَصَدَّعَا ’’ہم دونوں عرصے تک جذیمہ کے دوہم مشرب ساتھیوں کی طرح اکٹھے رہے، کچھ اس طرح کہ لوگوں نے کہا یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے۔‘‘ فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا کَأَنِّي وَمَالِکًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَیْلًا مَعَا ’’لیکن جب ہم جدا ہوئے تو مدتِ دراز ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود یوں معلوم ہوتا تھا کہ میں اور مالک کبھی ایک دن کے لیے بھی اکٹھے نہیں رہے۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو جھوم اٹھے۔ فرمایا: بخدا مرثیہ تو اِسے کہتے ہیں، پھر کہنے لگے
Flag Counter