Maktaba Wahhabi

74 - 241
فنون میں مہارت تامہ بہم پہنچائی۔ ان فنون میں کمال پیدا کرنا مکہ کے نوجوانوں کا طرۂ امتیاز سمجھا جاتا تھا۔ عمر کا والد خطاب نہایت تند خو اور سخت گیر آدمی تھا۔ عمر دن بھر خطاب کے اونٹ چراتا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو خطاب اسے زد و کوب کرتا۔ خطاب کی سخت گیری عمر بھر اُس کی یادوں کا حصہ رہی۔ خطاب کٹر بت پرست تھا۔ چراگاہ کے اونٹ، صحرائے مکہ اور اصنامِ کعبہ، یہ تھی خطاب کی کل کائنات۔ وہ بڑے اہتمام سے بتوں کی پوجا کرتا، ان کی خوب آؤ بھگت کرتا، ان کی بھینٹ چڑھاتا۔ اس کے بھتیجے زید بن عمرو بن نفیل نے بتوں کی پوجا کرنی چھوڑ دی تھی۔ اب وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کی تلاش میں مکہ سے نکل جانا چاہتا تھا۔ خطاب کو پتہ چلا تو اس نے صفیہ بنت حضرمی سے زید کی نگرانی کرنے کو کہا۔ زید جونھی رختِ سفر باندھ کر گھر سے نکل بھاگنے کی تیاری کرتا، صفیہ دوڑی ہوئی جاتی اور خطاب کو خبر کرتی۔ خطاب آتا، زید کو ڈراتا دھمکاتا اور جانے سے منع کر دیتا۔ اس نے جب دیکھا کہ زید ٹلنے کا نہیں تو اس نے زید کو حرا کے قریب مکہ کے پہاڑوں میں محبوس کر دیا اور قریش کے چند اوباشوں کو روانہ کیا کہ وہ زید کی نگرانی کریں اور یہ بھی دھیان رکھیں کہ وہ نہ تو سفر پر جانے پائے نہ مکہ میں داخل ہو سکے اور نہ لوگوں سے میل ملاپ کرنے پائے۔ مبادا وہ دوسرے لوگوں کی زندگی بھی خراب کر ڈالے۔[1] حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایک بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ بدر، اُحد، خندق سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ یمامہ میں لڑتے ہوئے مرتبۂ شہادت
Flag Counter