Maktaba Wahhabi

57 - 241
غالب ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے اِس معرکے میں بے مثال صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے یکبارگی بھرپور حملہ کیا۔ کافروں کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ سر پہ پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا۔ جو جو ہاتھ آیا اُسے تہ تیغ کیا۔ جو باقی بچ رہے وہ حَدیقۂ موت (موت کے باغ) کی چار دیواری میں جاگھسے۔ وہاں گھسنے کا مشورہ انھیں محکم بن طفیل نے دیا تھا۔ ملعون مسیلمہ بھی وہیں موجود تھا۔ محکم بن طفیل اپنی قوم کو ہدایات دے رہا تھا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا۔ انھوں نے تاک کر تیر مارا۔ محکم بن طفیل وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اُدھر بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر لیا۔ مسلمانوں نے باغ کا گھیراؤ کرلیا اور اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے ڈھال پر بٹھاؤ اور دیوار پر سے دوسری جانب پھینک دو۔ وہ بڑی ڈھال پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے ڈھال کو نیزوں سے اوپر اٹھایا اور وہ دیوار پر سے باغ کے اندر کود گئے۔ اندر کودتے ہی وہ تلوار چلاتے ہوئے سیدھے دروازے کی طرف بڑھے۔ دربانوں کو تہ تیغ کیا اور دروازہ کھول دیا۔ مسلمانوں کا لشکر باغ میں جا داخل ہوا۔ اہل ارتداد کی تو شامت آگئی۔ جو بھی سامنے آیا، کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ کچھ افراد مسیلمہ کذاب تک جا پہنچے۔ حضرت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ نے دور کھڑے تاک کر برچھے کا وار کیا جو مسیلمہ کے بدن کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ وہ گر پڑا۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور تلوار کے پے در پے وار کرکے اس لعین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اتنے میں ایک عورت نے محل کی چھت پر سے آواز لگائی: ’’ہائے! حسن و جمال کے امیر کو کالے غلام نے مار ڈالا۔‘‘ مسیلمہ کذاب جہنم واصل ہوا تو جزیرہ نمائے عرب میں سے گویا ارتداد کی جڑ اکھڑ
Flag Counter