Maktaba Wahhabi

55 - 241
پڑتی تھی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ نے تھام رکھا تھا جبکہ انصار کا علم حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ دیگر تمام قبائل کے اپنے اپنے پرچم تھے۔ جنگ کے پہلے مرحلے میں بدو شکست کھاگئے۔ بنو حنیفہ بڑھتے بڑھتے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے میں آگھسے۔ تب صحابہ کرام نے ایک دوسرے کو جوش دلایا۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے انھیں مخاطب کرکے کہا: ’’تم نے اپنے جوڑی داروں کو برُے راستے پر ڈال دیا ہے۔‘‘ تب ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں: ’’یا خالد! ہمیں آگے بڑھنے کا موقع دیجیے۔‘‘ چنانچہ مہاجرین و انصار کی ایک ٹکڑی نہایت دلیری سے آگے بڑھی۔ بنوحنیفہ کے مرتد بھی ایسی بے جگری سے لڑے کہ کہیں دیکھی نہ سنی۔ صحابۂ کرام تو ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگے۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جو انصار کے علمبردار تھے، سر پر کفن لپیٹے اور خوشبو لگائے، جھنڈا تھامے نہایت ثابت قدمی سے کھڑے تھے۔ انھوں نے خود کو نصف ساق تک زمین میں گاڑ رکھا تھا۔ انھیں بھی ہر طرف سے حملہ کرکے وہیں شہید کر دیا گیا۔ مہاجرین نے حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے، آپ کی طرف سے بند ٹوٹے گا اور ہم پر حملہ ہوگا۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تب تو میں قرآن کا بُرا قاری ہوں گا۔ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بآواز بلند پکارا: ’’لوگو! ہمت سے کام لو۔ دشمن پر کاری ضرب لگاؤ۔ آگے بڑھتے چلو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’واللہ! میں آج نہیں بولوں گا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ دشمن کو شکست دے دے یا پھر میں اللہ تعالیٰ سے جاملوں اور اس سے ہم کلام ہوں۔‘‘ انھوں نے بھی نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
Flag Counter