Maktaba Wahhabi

53 - 241
بنی فزارہ تو چل دیے۔ اُدھر طلیحہ کی فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی۔ طلیحہ نے شکست سامنے دیکھی تو گھوڑے پر سوار ہوا جو اس نے اسی وقت کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ اپنی بیوی نِوار کو اونٹ پر سوار کیا اور شام کی طرف بھاگ گیا۔ اُس کی فوج تتر بتر ہوگئی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عیینہ بن حصن کو گرفتار کرلیا اور مشکیں کس کر مدینہ روانہ کر دیا۔ وہ مدینے میں داخل ہوا تو بچے اور لڑکے بالے اُس کے ساتھ ساتھ بھاگتے، اُسے انگلیوں کے کچوکے لگاتے اور کہتے: ’’ارے اللہ کے دشمن! تو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگیا تھا؟‘‘ وہ بھی اپنی نوع کا ایک ہی مسخرا تھا۔ کہتا: ’’میں ایمان لایا ہی کب تھا جو مرتد ہوتا۔‘‘ [1] خلیفۂ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اُس سے توبہ کرائی۔ اس نے توبہ کرلی تو آپ نے اُسے معاف کر دیا۔ بعدازاں عیینہ بن حصن کے اسلام میں بڑی خوبی آگئی۔ کئی روز بعد خبرملی کی طلیحہ نے بھی دوبارہ اسلام قبول کر لیا ہے، چنانچہ وہ خلافت صدیقی ہی میں عمرہ کرنے مکہ آیا۔ مارے شرم کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے چھپتا پھرتا تھا۔ خلیفۂ رسول جب تلک زندہ رہے، وہ آپ کا سامنا نہیں کرپایا۔ مکہ سے واپس آکر طلیحہ اسدی، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی افواج میں شامل ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’جنگ کے معاملات میں طلیحہ اسدی سے مشورہ کر لیا کیجیے، تاہم اُسے کسی دستے کا سپہ سالار مت بنایئے گا۔‘‘
Flag Counter