Maktaba Wahhabi

46 - 241
ہلاکت میں پڑ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ابوبکر جیسی نعمت سے نہ نوازا ہوتا تو ہم نے تو اتفاق کرلیا ہوتا کہ کم از کم زکاۃ کے اونٹوں کی وجہ سے لڑائی مول نہیں لیں گے۔ ہم اس پر قانع ہو جاتے کہ عربوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھائیں گے اور اطمینان سے اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ مانعین زکاۃ یا تو زکاۃ دینے پر آمادہ ہوں گے یا وہ اُن سے لڑائی کریں گے۔ اُن کے نزدیک مانعینِ زکاۃ کے لیے دو ہی راستے تھے۔ یا تو انھیں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھیں یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ اُن کے مقتولین جہنم واصل ہیں اور ہمارے شہداء جنت کے باسی۔ دوسرے وہ ہمارے شہداء کی دیت ادا کریں گے۔ تیسرے اُن کا جتنا مال متاع ہمارے ہاتھ آیا وہ ہمارے لیے مالِ غنیمت ہوگا۔ ہمارا جو ساز و سامان انھوں نے حاصل کیا وہ انھیں لوٹانا پڑے گا۔ اگر یہ باتیں منظور نہیں تو پھر اُنھیں جلاوطن ہونا پڑے گا۔ انھیں اُن کے علاقوں سے نکال باہر کیا جائے گا۔ یوں مسلمانوں نے اتفاق رائے سے طے کرلیا کہ اہل ارتداد اور مانعین زکاۃ یا تو اسلام قبول کرکے زکاۃ ادا کریں گے یا پھر اُن سے لڑائی کی جائے گی۔ خلیفۂ رسول نے اس عظیم الشان مہم کے لیے گیارہ فوجی دستے ترتیب دیے۔ حضرت خالید بن ولید رضی اللہ عنہ کی دلیرانہ قیادت میں پہلا فوجی دستہ طلیحہ بن خویلد اور مالک بن نویرہ کو سبق سکھانے کے لیے روانہ ہوا۔ دوسرافوجی دستہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کی کمان میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ تیسرے فوجی دستے کے قائد حضرت مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ خلیفہ رسول نے انھیں حکم دیا کہ وہ یمن جا کر اسود عنسی کے خلاف نبرد آزما ہوں۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چوتھا فوجی دستہ
Flag Counter