Maktaba Wahhabi

45 - 241
دیجیے۔ اور اُن کی تالیف ِ قلب کرتے رہیے تاآنکہ ایمان اُن کے دلوں میں گھر کر لے، پھر وہ خود بخود زکاۃ ادا کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اِس رائے کو سختی سے مسترد کر دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ جو زکاۃ نہیں دے گا میں اس سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا کہ ہم لوگوں سے آخر کس بات پر لڑیں جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں تا آنکہ وہ شہادت دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کا رسول ہے۔ اگر وہ یہ بات کہیں گے تو اپنی جانیں اور اپنے اموال مجھ سے بچا پائیں گے، ما سوائے اُن باتوں کے جن میں کسی کی جان لینی یا کسی کا مال لینا درست ہے۔‘‘ [1] خلیفۂ رسول نے اُن کے جواب میں فرمایا: ’’اللہ کی قسم! بکری کا ایک بچہ جو وہ رسول اللہ کو زکاۃ میں ادا کرتے تھے، مجھے زکاۃ میں نہیں دیں گے تو میں اِس پر بھی اُن سے لڑوں گا۔ زکاۃ مال کا حق ہے۔ جو آدمی نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا میں بخدا! اُس سے ضرور لڑوں گا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ تب مجھے اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کو اس معاملے میں شرح صدر عطا فرمائی ہے۔ اور اگر وہ مانعینِ زکاۃ سے لڑائی پر آمادہ ہیں تو بالکل حق بجانب ہیں۔ اِس معاملے کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم نے جو موقف اختیار کیا تھا، عین ممکن تھا کہ ہم اُس کی و جہ سے
Flag Counter