Maktaba Wahhabi

43 - 241
تواضع، عجزو انکسار اور حفظ مراتب کی ایسی عمدہ مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ آخر میں آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں جو حکم دیا تھا اُس کی تعمیل کرنا اور اس سلسلے میں ذرہ بھر کوتاہی مت برتنا۔‘‘ [1] اس وقت جبکہ جیش اسامہ شام کی طرف روانہ ہوا، کئی ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہے ہوں گے کہ کیا خلیفۂ رسول، جیش اسامہ کو ہر صورت روانہ کرنے میں حق بجانب ہیں؟ کیا مدینہ منورہ کی سالمیت واقعی خطرے میں نہیں ہے؟ کئی مسلمانوں کے مشورے کے باوجود خلیفہ رسول نے اپنی ہی رائے پر عمل کیوں کیا؟ یہ اور ایسے کئی سوال اُس وقت ذہنوں میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ لیکن جب جیش اسامہ شام کی مہم نہایت کامیابی کے ساتھ سر کرنے کے بعد واپس آیا تو فریق مخالف بھی خلیفۂ رسول کے حکمت بھرے فیصلے کی افادیت تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا۔ جیش اسامہ کی وجہ سے عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ لشکر جہاں جہاں سے گزرا وہاں کے اہل ارتداد سہم گئے۔ جو لوگ بغاوت کے لیے پر تول رہے تھے وہ آرام سے بیٹھ گئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ’’مسلمان اگر کمزور ہوتے تو اتنا بڑا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے کیونکر نکلتے۔‘‘ جیش اسامہ اگر بالفرض روانہ نہ کیا جاتا تو مدینہ منورہ کی سالمیت کو اور زیادہ خطرات لاحق ہو جاتے۔ تاہم مدینہ منورہ میں یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ بہت سے مسلمان قبائل مرتد ہوگئے ہیں اور بعض دیگر قبائل نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اُدھر مسیلمہ کذاب کے فتنے نے بھی سر اٹھایا۔
Flag Counter