Maktaba Wahhabi

206 - 241
جس طرح صحیح اسلامی عقیدے کے مطابق تربیت پائی تھی، فتوحات کی پروردہ نئی نسل اس کی فیض رسانیوں سے محروم رہی تھی۔ و جہ اس کی یہ تھی کہ ایک تو نئی نسل کی تعداد بہت زیادہ تھی، دوسرے، فاتحین نئی نئی مہمات سر کرنے میں مصروف تھے۔ یوں وہ نئی نسل پر تو جہ نہیں دے پا رہے تھے، چنانچہ نئی نسل کے افراد ایک طرف تو سنی سنائی باتوں سے جلد متأثر ہوجاتے، دوسری طرف وہ ان افکار و نظریات اور اُن روایات واقدار کا چرچا کرتے نظر آتے جو انھیں جاہلی ذرائع سے معلوم ہوئی تھیں۔ عمال حکومت کے نام ایک خط میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بڑھتی ہوئی معاشرتی تبدیلی کا ذکر کیا تھا۔ آپ نے اس تبدیلی کے اسباب بھی بیان کیے تھے۔ آپ نے لکھا تھا: رعایا کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اور وہ شر کی طرف دوڑی چلی آتی ہے۔ تین باتیں اسے اس طرف دھکیل رہی ہیں: مال و متاعِ دنیا جسے ہر شے پر ترجیح دے دی گئی ہے۔ خواہشات نفس جن کی پیروی عام طور پر کی جاتی ہے۔ اور سخت کینہ جسے لوگ سینوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔‘‘[1] کوفہ کے وزیر حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ نے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا تھا جس میں انھوں نے کوفہ کے روز افزوں معاشرتی تغیرات کا تذکرہ کھلے الفاظ میں کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا: ’’اہل کوفہ کی سیاسی و معاشرتی صورتحال عدم توازن سے دو چار ہے۔ نچلے طبقے کے افراد اور باہر سے آنے والے گھٹیا بدو شہر کے معزز افراد پر غلبہ پارہے ہیں اور طوطی آج کل انھی کا بولتا ہے۔ معزز افراد کو تو کوئی پوچھتا نہیں۔‘‘[2] مفتوحہ علاقوں میں مختلف قبائل کے اجتماع نے بھی عجیب و غریب مخلوط معاشرہ جنم دیا تھا۔ اس معاشرے کی اپنی ہی خصوصیات اور اپنے ہی طور اطوار تھے۔
Flag Counter