Maktaba Wahhabi

203 - 241
منطقی استدلال اور مختلف معاملات کا تجزیہ کرکے درست نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت ان لوگوں میں نہیں تھی۔ یہی وہ قاری تھے جنھوں نے آگے چل کر خوارج کا روپ دھارا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں جب فتوحات کا دائرہ بہت پھیل گیا تو فوج کو افرادی قوت کی ضرورت پڑی، چنانچہ بہت سے بدو فوج میں بھرتی کرلیے گئے۔ فوج میں شامل ہونے سے ان کے رعب ودبدبہ میں یکدم بہت اضافہ ہوگیا۔ خلافت عثمانی کے آخری دور میں فتوحات کا سلسلہ منقطع ہوا تو بدؤوں کو فارغ البالی میسر آئی۔ اب چونکہ ایمان ان کے دل میں جاگزیں نہیں تھا اور وہ مال غنیمت کے لالچ میں مسلمان ہوئے تھے، اس لیے وہ امور سیاست اور امور مالیات میں دلچسپی لینے اور ان میں کیڑے نکالنے لگے۔ خلیفۂ وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کے پیش نظر کہ جو آدمی بنجر زمین کو آباد کرے گا اس کے مالکانہ حقوق بھی اسی کو ملیں گے،[1]مفتوحہ اراضی میں سے کچھ بنجر زمین کے مالکانہ حقوق بعض کبار صحابۂ کرام کو عطا کیے۔ اس پر سبائیوں نے بہت شور مچایا۔ بدو جو تمام مفتوحہ اراضی کو باپ کی جاگیر سمجھتے تھے، انھیں بھی بہت غصہ آیا۔ انھوں نے بھی سبائیوں کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے خوب شور مچایا۔ ہر چند جنابِ خلیفہ نے انھیں بھی بڑی بڑی جاگیریں عطا کی تھیں، ان کی جہالت، ہٹ دھرمی اور کینہ پروری نے انھیں خلیفہ کا جانی دشمن بنا دیا۔ سبائیوں کا پروپیگنڈہ جلتی پر تیل کا کام کرتا رہا۔ بدوؤں کی عقل کا جنازہ نکل چکا تھا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ خلیفہ غلطی پر ہے اور وہ اس کی اصلاح کرنے نکلے ہیں، چنانچہ یہ نام نہاد مصلحین فتنہ انگیزی کے سلسلے میں سبائیوں کا سب سے کار آمد ہتھیار ثابت ہوئے۔
Flag Counter