Maktaba Wahhabi

193 - 241
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ چھ اراکین شوریٰ کے سپرد کردیا کہ وہ چھ میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنا لیں، چنانچہ ان سب نے متفقہ طور پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا۔‘‘[1] ان کے متفقہ انتخاب کے سلسلے میں حضرت امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول بھی نہایت قابل تو جہ ہے: ’’لوگ کسی کی بیعت پر اس قدر یک جہتی سے متفق نہیں ہوئے جس قدر یگانگی سے وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوئے تھے۔‘‘[2] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کی اس روایت پر جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ صحابۂ کرام، حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو امت کا بہترین فرد سمجھتے تھے،[3] نہایت وقیع تبصرہ لکھا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ اس روایت سے یہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ صحابۂ کرام کے ہاں امت کے پہلے بہترین فرد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ دوسرے بہترین فرد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور تیسرے بہترین فرد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض روایات میں تو یہ بھی آتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی صحابہ کرام کے اس نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل تھی تاہم آپ نے کبھی ان کے اس نقطۂ نظر کی تردید نہیں فرمائی، جس کا صاف مطلب ہے کہ صحابۂ کرام کا یہ نقطۂ نظر بالکل درست تھا۔ اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تمام مسلمانوں نے بھی بے چون و چرا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور کسی فرد نے بھی ان کی بیعت سے رو گردانی نہیں کی۔[4]
Flag Counter