Maktaba Wahhabi

186 - 241
برسائی۔ زمین نے سبزہ نہیں اگایا۔ لوگ تو موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے میں آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں۔ فرمایا: ’’گھروں کو جاؤ اور صبرو ہمت سے کام لو۔ امید ہے کہ آج شام ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کوئی وسیلہ پیدا کرے گا۔‘‘ آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ اسی روز سہ پہر کو خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک تجارتی قافلہ شام سے آرہا ہے۔ تجارتی قافلہ مدینہ پہنچا تو لوگ اہل قافلہ کا استقبال کرنے گھروں سے باہر نکل آئے ۔ قافلے میں سو اونٹ شامل تھے جن پر گندم اور روغن زیتون کے علاوہ منقیٰ بھی لدا ہوا تھا۔ تمام اونٹ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بٹھائے گئے۔ مدینہ کے بڑے بڑے تاجر اونٹوں پر لدا تجارتی سامان خریدنے آپہنچے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تاجروں سے دریافت کیا کہ آپ مجھے کتنا منافع دیتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ ایک روپیہ کے سامان کے عوض ہم آپ کو دو روپیہ دیتے ہیں۔ فرمایا: ’’مجھے تو اس سے زیادہ کی پیش کش ہوئی ہے۔‘‘ تاجروں نے کہا تب ایک روپیہ کے عوض چار روپیہ دیتے ہیں۔ فرمایا: ’’مجھے تو اس سے بھی زیادہ منافع مل رہا ہے۔‘‘ تاجروں نے کہا کہ پانچ روپیہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ابوعمرو! مدینہ کے تمام تاجر یہاں آئے ہیں۔ آپ کو اتنا منافع اور کون دے رہا ہے؟ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک روپیہ کے بدلے دس روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر ان اونٹوں کا تمام سامان ضرورت مند مسلمانوں کے لیے صدقہ کرتا ہوں۔‘‘[1] خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو جب تیز دھار زہریلے خنجر کے پے در پے
Flag Counter