Maktaba Wahhabi

150 - 241
نہیں کمائی، نہ ان کے پاس قوت و طاقت تھی نہ وہ اونچے حسب و نسب والے تھے۔ ان کی حیات مستعار کا حاصل علم و عمل کے وہ چراغ تھے جنھیں وہ خون جگر سے اکساتے اور جہالت کے اندھیرے کو شعور و ادراک کے اجالے میں بدلتے رہے۔ آیئے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شبانہ گردی کا ایک اور واقعہ پڑھتے ہیں۔ ایک رات وہ کسی گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک عورت کی گنگناتی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ وہ نصر بن حجاج نامی ایک نوجوان کی محبت میں سرشار گیت گارہی تھی۔ پاس بیٹھی سہیلی نے جب نصر بن حجاج کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ نصر بن حجاج وہ ہے جس کے ساتھ میں طویل رات کے حسین لمحے گزارنا چاہتی ہوں۔ نصر بن حجاج خوش شکل نوجوان تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی یہ بات سن کر فرمایا: جب تک عمر زندہ ہے، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگلی صبح نصر بن حجاج کو بلا بھیجا۔ وہ آیا تو آپ نے دیکھا کہ اس کے بال گھنے سیاہ اور چہرہ نہایت صبیح ہے۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ سر منڈا دو۔ اس نے حسبِ ارشاد سرمنڈا دیا۔ گوری چندیا نکل آئی۔ وہ اور بھی خوبصورت لگا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ عمامہ باندھا کرو۔ اُس نے تعمیل ارشاد میں عمامہ باندھا تو اس کی سندرتا میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آپ نے اس سے فرمایا: ’’تم میرے ساتھ اس شہر میں نہیں رہ سکتے جس کی عورتیں تمھاری تمنا کرتی ہیں۔‘‘ آپ نے اسے زادِ راہ دیا، ضرورت کا سامان مہیا کیا اور بصرہ بھیج دیا۔ ادھر اس عورت کو پتہ چلا کہ امیرالمومنین نے اس کی باتیں سن لی ہیں تو اس نے آپ کو خط لکھا اور رضامندی کی طالب ہوئی۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھ تاچھ کی تو معلوم ہوا کہ وہ پاکدامن عورت ہے، چنانچہ اسے کہلا بھیجا کہ مجھے تمھارے متعلق اچھی خبر ملی ہے، اس
Flag Counter