Maktaba Wahhabi

146 - 241
سے فرار ہونے کا بندوبست کرلیا اور اہل خانہ کو کہلا بھیجا کہ میری سواری، باندی اور شلوکا بھیج دو۔ اس نے باندی کو اپنے پیچھے سوار کیا اور نکل بھاگا۔ رات بھر چلتا رہا۔ پوپھوٹنے پر اونٹنی بٹھائی اور نیچے اتر کر چھپ گیا۔ دن بھر چھپا رہا۔ تلاش کا سلسلہ جو رات سے جاری تھا تھم گیا تو وہ کمین گاہ سے نکلا، اونٹنی پر بیٹھا، باندی کو بھی سوار کیا اور چل پڑا۔ مدینے پہنچا۔ حضرت خلیفہ ہاتھ میں دُرہ لیے لوگوں کو نماز فجر کے لیے بیدار کر رہے تھے۔ معن بن زائدہ نے اونٹنی بٹھائی۔ باندی کو وہیں چھوڑا اور حاضر خدمت ہو کر سلامِ خلافت پیش کیا۔ جناب خلیفہ نے سلام کا جواب دیا اور دریافت کیا کہ کون ہے۔ وہ بولا: ’’معن بن زائدہ ہوں۔ توبہ کرنے کے لیے حاضر خدمت ہوا ہوں۔‘‘ حضرت خلیفہ نے صبح کی نماز پڑھائی اور لوگوں سے کہا کہ ذرا مسجد ہی میں تشریف رکھیے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد لوگوں کو مخاطب کیا اور فرمایا: ’’یہ معن بن زائدہ ہے۔ اس نے جعلی مہر بنا کر کوفے کے بیت المال میں سے کچھ مال نکلوالیا تھا۔ بتایئے، اس سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔‘‘ ایک صاحب نے کہا: اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیے۔ ایک نے کہا: اسے سولی پر لٹکا دیجیے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے تھے۔ آپ نے اُن کو مخاطب کیا: ’’ابوحسن! آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’یا امیرالمومنین! اس آدمی نے ایک جھوٹ ہی تو بولا تھا۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بطورِ سزا خوب کوڑے لگائے اور قید خانے میں ڈال دیا۔ جب تک اللہ نے چاہا وہ قید خانے میں رہا۔ ایک روز اس نے اپنے ایک قریشی دوست کو پیغام بھیجا کہ امیرالمومنین سے میری سفارش کردو، وہ مجھے رہا کردیں۔ اس نے آپ سے بات کی اور عرض کیا کہ یا امیرالمومنین! معن بن زائدہ جتنی سزا کا مستحق
Flag Counter