Maktaba Wahhabi

144 - 241
معاشرے کی فضا پاکیزہ رکھنے کے لیے انھوں نے کئی اقدامات کیے۔ انھی میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ دور دراز کے سرکاری ملازمین کو ہر تین ماہ بعد رخصت دینے کا قانون نافذکیا۔ اس قانون کی اہمیت کا اندازہ کچھ وہی افراد کرسکتے ہیں جنھیں شادی کے بعد کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک جانا پڑتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے افراد کئی کئی برس تک گھروں کو نہیں لوٹتے۔ اسلام میں ایسے کسی کاروبار اور ایسی کسی ملازمت کی گنجائش نہیں جس کے نتیجے میں فرد اور معاشرے کو روحانی پاکیزگی سے ہاتھ دھونے پڑیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نافذکردہ قانون بڑا ہی لاجواب قانون تھا۔ یہ بیدار مغز حکمران رعایا کی کسی ضرورت سے بے خبر نہیں تھا۔ اور جو کام وہ خود کرسکتا تھا اسے کسی اور کے سپرد نہیں کرتا تھا۔ ایک مرتبہ شدید گرمی کے موسم میں عراق کا ایک وفد حاضرِ خدمت ہوا۔ وفد میں حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شلوکا سر پر لپیٹے زکاۃ کے ایک اونٹ کے بدن پر دوا مل رہے تھے۔ آپ کی نظر جونہی حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ پر پڑی، انھیں مخاطب کیا اور کہا: ’’احنف! کپڑے اتارو اور آکر امیرالمومنین کی مدد کرو۔یہ زکاۃ کا اونٹ ہے۔ یہ یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا حق ہے۔‘‘ ایک صاحب نے جو وہیں موجود تھے، عرض کیا: ’’یاامیرالمومنین! کسی غلام سے کہہ دیجیے۔ وہ یہ کام کردے گا۔‘‘ فرمایا: ’’مجھ سے اور احنف سے بڑا غلام اور کون ہے!‘‘ پھر آپ نے وہ لازوال جملہ کہا جو اِس لائق ہے کہ ہر حکمران کا دستور العمل بنے۔
Flag Counter