Maktaba Wahhabi

63 - 108
وہ ذمہ داری پوری کر سکے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: [وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا Ḍ۝ۙ][1] (اور ہم نے تمہاری نیند کو باعث آرام بنایا ۔) نیند کی کثرت انسان کو کاہل اور نکما بنا دیتی ہے۔ طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ زیادہ نیند لینے والا انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ سانس درست نہیں آتی۔ دل اور بدن کی بیماری لاحق ہو جاتی ہیں۔ وجود کی تندرستی میانہ روی میں ہے۔ جو یہ اختیار کر لے وہ بہت سے بھلائیاں سمیٹ لے گا۔ علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ نیند کی کثرت دل کو مردہ کردیتی ہے جسم کو بوجھل کرتی ہے۔ وقت کو برباد کرتی ہے۔ غفلت اور سستی میں اضافہ کرتی ہے۔ کثرت نوم کی بہت خرابیاں ہیں۔ جو بدن کو نفع دینے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہیں۔ نفع بخش نیند وہ ہے جو شدید ضرورت کے وقت آئے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں سو جانا قابل تعریف ہے اور آخری شب اُٹھ جانا بہت مفید ہے۔ دوپہر کو قیلولہ کرنا بھی مفید اور سنتِ نبوی ہے۔ لیکن صبح و شام سونا نحوست پھیلاتا ہے۔ خاص کر نماز فجر کے بعد دن چڑھے تک سونا اچھا نہیں ہے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ راوی ہیں: «اَنَّ رسولَ اللّٰهِ کَانَ یَکْرهُ النَّومَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالْحَدِیْثَ بَعَدْهَا»[2] (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سوجانا برا جانتے تھے اسی طرح عشا کی نماز کے بعد باتیں کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔) جو آدمی رات نماز پڑھے بغیر سو جاتا ہے اس کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ اور ہر گرہ پر یہ یقین دلاتا ہے کہ ابھی بڑی رات پڑی ہے۔بے فکر سو جا۔ پھر اگر آدمی جاگا اور اللہ کی یاد کی تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ جب وضو کرے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ جب آدمی صبح کرتا ہے تو ہشاش بشاش ہوتا ہے۔ ورنہ صبح کو سست مزاج رہتا ہے۔ (بخاری ۔کتاب التہجد)
Flag Counter