Maktaba Wahhabi

39 - 108
کے لیے رکھیں‘ عقیدت کے طور پر رکھیں‘ یا بطور یاد گار رکھیں۔ سب ہی صورتیں حرام ہیں۔ مسلمانوں میں بت گری کی بجائے مصوری بہت عام سی چیز ہے۔ دور جاہلیت میں لوگ اپنے صالحین یا دیوی ‘ دیوتاؤں کے بت بناتے تھے۔ آج مسلمان اپنے بادشاہوں‘ سیاسی لیڈروں اور قابل تعظیم حضرات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی ان تصویروں سے وہی عقیدت ہوتی ہے جو اس دور کے مشرکوں کو اپنے بزرگوں کے مجسموں سے ہوتی تھی عزت و تکریم کے جذبات میں بھی کچھ فرق نہیں ہوتا۔ مسلمان ان تصویروں کو اپنے گھروں اور دفتروں میں آویزاں کر کے انہیں مزین کرتے ہیں اور ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ مثلاً ایرانی شیعہ جو بزعم خویش اسلامی انقلاب کے داعی ہیں اپنے امام خمینی کی تصویر کو اس کی ہدایت کے مطابق سینے سے چمٹائے‘ گلے لگائے بیت اللہ میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کعبہ کو بتوں اور تصویروں سے پاک کیا تھا اسی گھر کو یہ لوگ کاغذی بتوں سے آلودہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہیں آپ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر دیکھیں گے جو کشتی کے نیچے ہاتھ دے کر اسے ساحل پر لگا رہے ہیں۔ ان کی مشکل کشائی کو ظاہر کرنے والا یہ کاغذی بت اب دکانوں پر بکتا اور گھروں میں آویزاں کیا جاتا ہے۔ کہیں آپ کو کسی ننگ دھڑنگ بزرگ کی تصویر دکھائی دے گی جو صرف ایک لنگوٹی پہنے جانوروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کسی تصویر میں ایک بزرگ کو شیر پر سوار دکھایا جاتا ہے پھر ان کے ساتھ انکے مزار کی بھی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ گویا جاہلی دور کے لوگ جیسی عقیدت پتھر کے مجسموں سے رکھتے تھے ویسی ہی عقیدت آج کا مسلمان کاغذی بتوں سے رکھتا ہے۔ بت گری اور مصوری میں اسی مشابہت کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصور کو ملعون قرار دیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب البیوع) بخاری و مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان الذین یصنعون هذه الصور یعذبون یوم القیامة یقال لهم احیوا ما خلقتم» (بے شک وہ لوگ جو تصویریں بناتے ہیں قیامت کے دن ان کو عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا۔ تم نے تصویریں بنائی تھیں ان کو زندہ
Flag Counter