Maktaba Wahhabi

79 - 555
اللہ تعالیٰ نے ان کے سچ بولنے کی وجہ سے ان کی توبہ قبول کر لی اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اُس عذاب سے بچ گئے جس کی وعید اس نے جھوٹے عذر بیان کرنے والے منافقوں کو یوں سنائی : ﴿إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَّمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾[1] ’’ وہ ناپاک ہیں اور ان کے کرتوتوں کے باعث ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ ‘‘ ان تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ تبوک کے وقت انتہائی خوشحال تھا اور باغات پھلوں سے لدے ہوئے تھے ۔ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ اگر میں بعد میں بھی روانہ ہوا تو ان سے جا ملنے پر قادر ہوں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وہ لوگ بہت آگے چلے گئے اور میں پیچھے رہ گیا ۔ میں جب گھر سے باہر نکلتا تو مجھے یہ بات افسردہ کردیتی کہ میرے جیسا اور کوئی نہیں جو اس جنگ سے پیچھے رہا ہو سوائے منافقوں کے یا ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے ۔ پھر جب مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس روانہ ہو چکے ہیں تو میں شدید غمزدہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچنے کیلئے مختلف جھوٹے عذر سوچنے لگا ۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے گھروالوں میں سے کچھ سمجھدار افراد سے مشورہ بھی کیا لیکن جب میں نے سنا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بس پہنچنے ہی والے ہیں تو میرے دل سے جھوٹے خیالات نکل گئے اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بول کر ہی میں نجات حاصل کر سکتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے آئے تو آپ نے مسجد میں دو رکعات ادا کیں ، بعد ازاں لوگوں سے میل ملاقات کیلئے بیٹھ گئے ۔ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، سب نے قسمیں اٹھا کر مختلف عذر پیش کئے ۔ ان کی تعداد اسی (۸۰)سے زیادہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لئے اور ان کیلئے استغفار کرتے ہوئے ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا ۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ۔ آپ نے پوچھا کہ تم کیوں پیچھے رہے ؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہوتا تو میں اس کی ناراضگی سے ضرور بچ نکلتا کیونکہ مجھے فصاحت وبلاغت دی گئی ہے جس کی بناء پر میں اپنا موقف منوا سکتا ہوں ۔ لیکن اللہ کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر میں جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاؤں تو اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کرکے مجھ سے ناراض کردے گا ۔ اور اگر میں آپ سے سچ بولوں تو ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ اچھا نکالے گا ۔
Flag Counter