Maktaba Wahhabi

200 - 555
وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِیْ أَہْلِہٖ،وَہُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ،وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِہَا،وَہِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِہَا…فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ[1])) ’’ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی ۔لہٰذا وقت کا حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا اورہر آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ اورہر عورت اپنے خاوند کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے بھی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔۔۔ سو تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کے متعلق جوابدہ ہو گا ۔‘‘ اس حدیث میں ہر شخص کو اس کے گھر والوں کا جن میں اس کے بیوی بچے شامل ہیں ذمہ دار، نگران اور محافظ بتلایا گیا ہے ۔ اور یہ کہ ہر ایک سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے کہاں تک ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا تھا ! اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : (( مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً ، یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَہُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِہٖ ، إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)) [2] ’’ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ذمہ دار اور نگران بناتا ہے ، پھر وہ آخری دم تک اپنی رعیت سے دھوکہ کرتا رہتا ہے تواللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘ اس حدیث میں ہر ذمہ دار کو تنبیہ کی گئی ہے اور اسے یاد دلایا گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو دیانتداری اور امانت کے ساتھ نبھائے ورنہ اگر اس کی موت اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ دھوکہ کرتے ہوئے آگئی تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔اور چونکہ والدین بھی اپنی اولاد کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ان کی اولاد ان کی رعیت ہوتی ہے اس لئے انھیں بھی اپنی اس رعیت کے ساتھ مکمل طور پر خیر خواہی کرنی چاہئے ۔ دنیاوی معاملات میں تو والدین اپنی اولاد کی خیرخواہی کا سوچتے ہی ہیں ، اسی طرح دینی اور اخروی معاملہ میں بھی اولاد سے خیرخواہی کرنا ان کا فرضِ منصبی ہے ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
Flag Counter