Maktaba Wahhabi

80 - 555
اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی عذر نہ تھا بلکہ میں اس جنگ کے وقت جتنا خوشحال اور طاقتور تھا اتنا کبھی نہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( أَمَّا ہَذَا فَقَدْ صَدَقَ ، فَقُمْ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ فِیْکَ )) ’’ رہا یہ شخص تو اس نے سچ بولا ہے ۔لہٰذاتم چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمھارے بارے میں کوئی فیصلہ کردے ۔‘‘ اس کے بعد میں چلا گیا ۔ لوگوں نے مجھے ڈانٹا کہ اگر میں بھی منافقوں کی طرح کوئی عذر بیان کر دیتا تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بھی استغفار فرماتے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی اور بھی ہے جس کا معاملہ میرے معاملے جیسا ہو ؟ انھوں نے کہا : ہاں ، دو اور ہیں جنھیں یہی جواب دیا گیا ہے جو تمھیں دیا گیا ہے اور وہ ہیں : مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ ۔چنانچہ میں چلا گیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کردیا ۔ چنانچہ وہ ہم سے کنارہ کش ہو گئے اور اس قدر بے رخی اختیار کی کہ مجھے ایسے لگا جیسے یہ زمین بھی وہ نہیں جسے میں پہلے جانتا تھا۔ میرے دونوں ساتھی تو اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ گئے اور روتے ہوئے دن رات گذارنے لگے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ان کی نسبت کم سن تھا اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا ۔ میں گھر سے باہر نکلتا ، مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا ، بازار وں میں گھومتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آتا ، آپ کی خدمت سلام پیش کرتا اور دل میں کہتا کہ پتہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہونٹ بھی ہلائے ہیں یا نہیں ؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز ادا کرتا ، جب پوری طرح نمازکی طرف متوجہ رہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے رہتے ، لیکن جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ نظریں ہٹا لیتے ۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ۔ میں لوگوں کی بے رخی سے تنگ آ چکا تھا ۔ اسی دوران مجھے غسان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ تمھارے ساتھی نے تمھارے ساتھ بے وفائی کی ہے حالانکہ تم وہ شخص نہیں جسے اس طرح ضائع کردیا جائے۔لہٰذاتم ہمارے پاس آ جاؤ ، ہم تمھارا ساتھ دیں گے اور تم سے ہمدردی کریں گے ۔ میں نے وہ خط جلا دیا اور دل میں کہا کہ یہ ایک اور آزمائش ہے ۔ چالیس دن گذرنے کے بعد ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آیا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ ہو جائیں ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دیا ۔ اس طرح پچاس راتیں گذر گئیں ۔ پچاسویں رات گذرنے کے بعد میں نے نماز فجر اپنے گھر کی چھت پر ادا کی ۔ میری حالت وہی تھی جو اللہ تعالیٰ نے ذکر کی ہے کہ
Flag Counter