Maktaba Wahhabi

197 - 555
لگی : میری ماں نے نذر مانی تھی کہ وہ حج کرے گی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گئی ہے ۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نَعَمْ حُجِّیْ عَنْہَا،أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلیٰ أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَۃً ؟ اِقْضُوْا اللّٰہَ ، فَاللّٰہُ أَحَقُّ بِالْوَفَائِ )) [1] ’’ ہاں اس کی طرف سے حج کرو ۔ تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر تمھاری ماں پر قرضہ ہوتا تو کیا تم ادا کرتی ؟ اللہ کا قرضہ ادا کرو کیونکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرضہ ادا کیا جائے ۔ ‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر والدین اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے فوت ہو جائیں اور اولاد نذر پوری کرنے کی طاقت رکھتی ہو تو اسے وہ نذر پوری کرنی چاہئے ۔ 9۔ والدین کے دوستوں سے حسن سلوک کرنا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ایک شکل یہ ہے کہ جو لوگ ماں باپ کے دوست ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، خاطر داری ،ادب ولحاظ اورمروت سے پیش آئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃُ الرَّجُلِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیْہِ بَعْدَ أَنْ یُّوَلِّیَ )) [2] ’’بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ باپ کی موت کے بعد حسن سلوک کرے ۔ ‘‘ اور یہی حکم ماں کی سہیلیوں کا بھی ہے۔ اسلئے کہ لفظ (أب) اسم جنس ہے اور اس میں ماں بھی شامل ہے ۔ عبد اللہ بن دینار کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک اعرابی مکہ کے راستے میں ملا ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کیا اور اپنے گدھے پر سوار کرلیا جس پر وہ خود سوار تھے اور اپنا عمامہ اس کو دے دیا جو خود ان کے سر پر تھا۔ عبد اللہ بن دینا ر نے کہا : أَصْلَحَکَ اللّٰہُ ! یہ لوگ دیہاتی ہیں ، تھوڑی سی چیز پر بھی خوش ہو جاتے ہیں! تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اس کا باپ میرے باپ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا دوست تھا اور میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا : (( إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَۃُ الْوَلَدِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیْہِ )) [3] ’’ بے شک بڑی نیکی یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے حسن ِ سلوک کرے ۔ ‘‘
Flag Counter