Maktaba Wahhabi

73 - 372
مزید برآں قرآن مجید کی درج ذیل آیت کریمہ بھی عورت کے نکاح کے لئے ولی کو ضروری قراردیتی ہے،ارشاد ہوتاہے ﴿وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُوْمِنَّ… وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَّتٰی یُؤمِنُوْا﴾۱۰؎ مذکورہ آیت میں جب مردوں کو حکم دیا تو کہا کہ وہ مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں لیکن عورتوں سے بلاواسطہ خطاب نہیں کیا بلکہ ان کے مرد(ولیوں)کو حکم دیا کہ وہ اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دیں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو اللہ تعالیٰ عورتوں کو ہی حکم دیتے کہ تم مشرکوں مردوں سے نکاح نہ کرو۔مردوں کو حکم دینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ عورت اپنے نکاح کا معاملہ خود نہیں بلکہ مرد کے ذریعے کروا سکتی ہے اور اصول بھی یہی ہے کہ مخاطب اسی کو کیا جاتا ہے جس کے پاس کوئی اختیار ہو جیسا کہ جمہور فقہاء کا مسلک ہے۔اور صحیح احادیث سے بھی اس مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((0لا تزوج المراۃ المراۃ ولا تزوج المراۃ نفسہا)) ۱۱؎ ٭ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم محدثین،جمہور فقہاء اور ائمہ امت کا موقف یہی ہے۔ ٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب من قال ’’لا نکاح إلا بولی ‘‘ کے عنوان سے باب باندھ کر،بطور تائید ان آیات کا تذکرہ کیا ہے: ﴿وَلَا تَنْکِحُوا المُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْامِنُوْا﴾۱۲؎ اور﴿وَاَنْکِحُوا الأَْیَامٰی مِنْکُمْ﴾۱۳؎ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت کیلئے ولی کا ہونا ضروری ہے،کیونکہ مرد کو مخاطب کیاگیا ہے عورت کو نہیں۔۱۴؎ ٭ محمد یوسف علی اندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ﴿وَلَا تَنْکِحُوا المُشْرِکِیْنَ﴾القراء۔۔۔بضم التاء والخطاب للأولیاء۔۔۔ونہی ہنا للتحریم وقد استدل بہذا الخطاب علی الولایہ فی النکاح وان ذلک نص فیہا۔۱۵؎ ’’ولا تنکحوا‘‘ میں تاء پر پیش پڑھنے(جو کہ مردوں کو مخاطب کرنے والا لفظ ہے)پر تمام ائمہ قرآن کا اتفاق ہے۔اور یہاں عورتوں کیلئے ان کے ولیوں کو مخاطب کیا جا رہا ہے اور اس خطاب سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ نکاح میں ولایت لازمی ہے اور یہ آیت اس بارے میں صریح ہے۔‘‘ ٭ امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’الثانیہ فی ہذہ الآیہ دلیل بالنص علی أن لا نکاح إلا بولی… فلم یخاطب تعالیٰ بالنکاح غیر الرجال ولوکان إلی النساء لذکرہن‘‘۱۶؎ اس آیت میں اس امر پر باقاعدہ نص سے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں واضح ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مقام پر مردوں کو چھوڑ کر کسی اور کو نکاح کا حکم نہیں دیا اگر یہ عورتیں اپنا نکاح خود کر سکتیں تو کسی بھی مقام پر اللہ انہیں حکم دیتے۔ ٭ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’ہذا خطاب للأولیاء لا للنساء‘‘۱۷؎ ’’یہاں خطاب عورتوں کے ولیوں کو ہے۔عورتوں کو نہیں(کیونکہ نکاح عورتیں خود نہیں کرسکتی بلکہ ان کے ولی سرانجام دیتے ہیں۔‘‘ ٭ اسی طرح علامہ رشید رضا رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر اس انداز سے کرتے ہیں: ’’والتعبیر تنکحوا و تنکحوا(بفتح التاء و ضمہا)یشعر بأن الرجال ہم الذین یزوجون أنفسہم و
Flag Counter