Maktaba Wahhabi

60 - 372
٭ایجاب وقبول نکاح کے موقع پر دولہا ودلہن کا ایجاب وقبول ضروری ہے دلہن کی طرف سے رضامندی وقبولیت کی ضمانت اس کا ولی دے گا جبکہ لڑکا بذات خود گواہوں کی موجودگی میں عقد نکاح پر رضامندی کااظہار کرے گا۔خواہ یہ رضامندی قولی طور پر ہو یا عملی طور پر ہو یعنی اگر نکاح کروانے والا لڑکے کوکہے کہ فلاں بنت فلاں کا نکاح،ان گواہوں کی موجودگی میں اتنے حق مہر کے عوض میں تمہارے ساتھ کیا،کیا تمہیں قبول ہے ایسے الفاظ ولی خود بھی لڑکے کوکہہ سکتاہے کہ میں نے اپنی زیر ولایت لڑکی یا بیٹی کا نکاح تم سے کیا،کیاتمہیں منظور ہے تولڑکے کا قبول ہے کہہ دینا یا اظہار رضامندی کے ساتھ سر ہلا کر اشارہ کر دینا نکاح کے انعقاد کے لیے کافی ہے۔البتہ سب سے مناسب صورت یہ ہے کہ لڑکا بآواز بلند’’ قبول ہے‘‘ کہہ کر رضامندی کا اظہار کرے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ام حکیم بنت قارظ رضی اللہ عنہا سے کہا،کیا تم نے اپنے نکاح کے معاملے میں مجھے مختار بنایا ہے کہ میں جس سے چاہوں تمہارا نکاح کردوں ؟تو ام حکیم نے کہا،ہاں توعبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا توپھر میں نے خود تم سے نکاح کیا۔ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ،تعلیقا لائے ہیں جوکہ’ کتاب النکاح‘ ’باب اذا کان الولی ہو الخاطب‘ کے تحت نقل کی گئی ہے۔ ٭خطبۃ النکاح نکاح پڑھانے والے کے لیے مستحب ہے کہ عقد سے پہلے خطبہ پڑھے اورخطبہ نکاح ایسا ہونا چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ء اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام کے الفاظ موجود ہوں یعنی کم ازکم ’الحمد للّٰه والصلوۃ والسلام علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘کے الفاظ پر مشتمل ہوناچاہیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل خطبۃ لیس فیہا تشہد کالید الجذفاء‘‘ ۶۷؎ ہروہ خطبہ جس میں تشہد نہ ہو وہ جذام والے ہاتھ کی طرح ہے۔ امام مناوی رحمہ اللہ فیض القدیر میں’’ کالید الجذفاء‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کالید الجذفاء ای المقطوعۃ،والجذم سرعۃ القطع،یعنی ان کل خطبۃ لم یؤت فیہا بالحمد والثناء علی اللّٰہ فہی کالید المقطوعۃ التی لافائدۃ بہا‘‘۶۸؎ ’’کوڑھ والے ہاتھ سے مراد ایسا ہاتھ ہے جوکاٹ دیا گیاہو اورکوڑھ کاٹنے کی تیزی کوکہاجاتاہے مطلب یہ ہے کہ ہروہ خطبہ جس میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء نہ کی جائے وہ کاٹے ہوئے ہاتھ کی طرح ہے جس سے کوئی کام نہیں لے سکتے یعنی اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔‘‘ ایک اور حدیث میں جوکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل أمر ذی بال لایبدا فیہ بحمد اللّٰہ فہو اقطع‘‘۶۹؎ ’’ہروہ کام جس کی ابتداء وآغاز الحمد للہ سے نہ کیاجائے تووہ کام کٹاہواہے(یعنی وہ کام ناقص اورادھورا ہے۔‘‘ یعنی ہر قابل اعتبار کام جوالحمدللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ برکت سے خالی ہے۔اس سے خاص الحمد ﷲ کہنا مراد نہیں ہے بلکہ اللہ کاذکر مقصود ہے۔تاکہ یہ مفہوم دوسری احادیث سے متفق ہوجائے افضل تویہ ہے کہ وہ خطبہ حاجت کے مطابق خطبہ دے۔
Flag Counter