Maktaba Wahhabi

33 - 372
تیسری خدمت یہ ہے کہ یہ نئی نسل کو خاص سماجی قدروں اور روایات پر مبنی رفاقت سکھاتا ہے اور آخری یہ کہ خاندان نئی نسل کو معاشی معاملات میں تعاون کرناسکھاتا ہے۔ ٭ ٹالکوٹ پارسن(Talcott Parson) کا نظریہ انہی اصولوں کے قریب پایا جاتا ہے۔ابتدائی رفاقت سازی یعنی بچے کواس کی عمر کے ابتدائی تشکیلی برسوں میں معاشرے میں اشتراک عمل سکھانا،ٹالکوٹ کے نزدیک خاندان کے اہم وظائف میں سے ایک ہے۔جس سے زندگی نہ صرف معاشرے کے کلچر کے دائرے میں آجاتی ہے بلکہ بچے کی شخصیت کی موثر ساخت وجود میں آتی ہے۔خاندان کا دوسرا بڑا وظیفہ بڑی عمر کی شخصیات کو استحکام مہیا کرنا ہے۔جہاں شادی شدہ جوڑے،ایک دوسرے کو جذباتی امداد فراہم کرتے ہیں اور روزمرہ زندگی کے دباؤ کے مقابلے میں مخالف مؤثر قوت بن کر زندگی کو توازن عطا کرتے ہیں۔ ٭ برگِٹ(Brigitte)اور پیٹربرگر(Peter Berger) بھی بچے کی فلاح،اخلاقی قدروں،معاشی کامیابی اور مذہبی عناصر کو خاندانی نظام زندگی کی برکات کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔ ٭ فران اینسلے(Fran Ansley) یہ سمجھتی ہے کہ بڑی عمر کے افراد کا استحکام،اس کے سوا کچھ نہیں کہ بیوی اپنے شوہر کے مروجہ نظام کے خلاف مایوسیوں اور اس کے اثرات کو جذب کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ ٭ ڈیوڈ کوپر(David Cooper) (مغرب میں مثبت سوچ کے حاملین کی تعداد بہت کم ہے جبکہ اکثر لوگ موجودہ تباہ حال معاشرے کی فکر کر کے ہم خیال ہی ہے )نے خاندان کو ایک فرد کی جکڑ بندی کا نظریاتی آلہ قرار دیا ہے جس میں لوگ اس بات کے سوا کچھ نہیں سیکھتے کہ ہر حال میں کیسے اطاعت گزار اور تابع فرمان رہنا ہے۔ ٭ کرسٹائن ڈلفی(Christine Delphy) اور ڈیانا لیونرڈ(Diana Leonard) اس بات پر زوردیتی ہے کہ خاندان آبائی روابط کو برقرار رکھنے میں مرکزی کردارادا کرتاہے جس کے اثرات وسیع سطح پر معاشرے میں بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ان کے نزدیک محنت کی تقسیم عورت کے لیے ایک جابرانہ رسم اور قانون ہے۔کیونکہ سربراہ خانہ ہمیشہ مرد ہی ہوتا ہے،عورتوں کو ان کے کاموں کا معاوضہ کبھی نہیں ملتا،اگر عورتیں گھر سے باہر نوکری کریں تو انہیں گھر کے کام کی دوہری ڈیوٹی بھی دینی پڑتی ہے اور گھر کا مرد بطور سربراہ گھر کے دوسرے افراد پر ایسے اختیارات سے لطف اندوز ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوتا۔ ٭ چیشائر کالہون(Cheshire Calhoun) یہ کہہ کر شادی کو بالکل ٹھکرا دیتی ہے چونکہ آبائی روایتی شادیوں کے اندر خاندانی زندگی،عورت کے لیے مصائب سے بھری ہوئی ہے اس لیے انہیں کسی متبادل نفسی تعلق اور روابط کے لیے آزاد ہونا چاہئے۔ ٭ لاوارا ایم پرڈی(Laura M. Purdy) ماں بننے کے چلن کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے کیونکہ یہ عورت کو مزید دبانے اور خاندان کے ساتھ باندھ کر رکھنے کا ایک وسیلہ ہے۔وہ کہتی ہے کہ بچے پیدا کرنے کے عمل کا بائیکاٹ کرنا چاہئے،تاکہ تمام مردوں کو علم ہوجائے کہ حقوق نسواں کی تحریک کے رہنما اور قائدین عورت کو مکمل آزاد کروانے کے اپنے مطالبے میں بہت سنجیدہ ہیں۔’’۱۰۴؎ یاد رہے کہ مذکورہ نظریات،تصورات اور افکار غیر فطری اور غیر حقیقی ہیں۔روایتی تصورات،جنسی امتیاز کے ازدواجی کردار پر زور دیتے
Flag Counter