Maktaba Wahhabi

243 - 372
ایسے کو شریک ٹھہرائے جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتّْہُ أُمُّہُ وَھْنًا عَلَی وَھْنٍ وَّ فِصَالُہُ فِیْ عَامَیْنِ عَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْر وَإِنْ جَاھَدَاکَ عَلَی أَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا﴾۱۶؎ ’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچانے کی تاکید کی ہے،اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے،(اس لئے ہم نے اسے وصیت کی کہ)میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا،میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک ٹھرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔‘‘ ٭ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت یہ واقعہ لائے ہیں: ’’طبرانی کی کتاب العشر(زندگی گزارنا) میں حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گزار تھا۔جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت دی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگیں بیٹا یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا۔سنو میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہوجاؤ۔ورنہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیؤں گی اور یونہی بھوکی مرجاؤں گی۔میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کردیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوازیں کسی جانے لگیں کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے۔میں بہت ہی تنگ دل ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں،سمجھایا کہ اللہ کے لئے اپنی ضد سے باز آجاؤ۔یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں۔اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گزر گیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہوگئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو تم میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں۔واللہ ایک نہیں تمہاری ایک سو جانیں بھی ہوں اور اسی بھوک و پیاس میں ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں آخری لمحہ تک اپنے سچے دین کو نہ چھوڑوں گا۔اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شروع کردیا۔‘‘۱۷؎ ٭ امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’یعنی والدین کی خدمت واجب ہے اور انکی اطاعت لازم ہے سوائے ان امور کے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ترک ہونا لازم آئے تو پھر والدین کی اطاعت نہیں۔چنانچہ فرمایا کہ اتباع کر،اس شخص کے راستے کی جو میری طرف پلٹ آیا… یعنی والدین کے ساتھ رہو اپنے جسم کے ساتھ بیشک ان کا تمہارے جسم پر حق ہے اور پیروی کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل کے ساتھ کیونکہ انہوں نے تمہاری عقلی تربیت کی ہے۔جسطرح کہ والدین نے تمہاری جسمانی تربیت کی ہے۔‘‘۱۷؍۱؎ والد خاندان کاسربراہ اور ذمہ دار ہے قیامت کے روز والد سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔والد کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں کو نیکی کا حکم دیتا رہے،کیونکہ وہ اپنے کنبے کا ذمہ دار ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَأمُرْ أَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا﴾۱۸؎ ’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کر اور اس پرثابت قدم رہ کر۔‘‘
Flag Counter