Maktaba Wahhabi

139 - 372
سکون،محبت،مہربانی اور ادائے حقوق پرگھر کی بنیاد رکھی تھی۔حیات زوجیت قابل اصلاح نہیں رہتی۔ تو ایسی صورت حال میں اسلام زوجین کے لیے رخصت دیتا ہے کہ جس کے بغیر چھٹکارا نہیں۔اگر ناپسندیدگی خاوندکی طرف سے ہے توعورت کو طلاق دے کر چھٹکارا حاصل کر لے۔اور اگر ناپسندیدگی عورت کی طرف سے ہے۔تووہ خاوند کو اس کادیا ہوا مہر،واپس کر کے اس سے آزادی حاصل کرسکتی ہے۔جس کو اصطلاح میں’’خلع‘‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ﴿وَلَایَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّااٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلَّااَنْ یَخَافَا اَلَّایُقِیْمَا حُدُوْدَاللّٰہ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَاافْتَدَتْ بِہٖ﴾۴۱؎ ’’اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ جو مال تم ان عورتوں کو دئے چکے ہو،اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر اس صورت میں کہ جب اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا جو عورت مرد کو خلع کے عوض میں دے۔‘‘ مزید برآں اسلام میں قانون خلع کو واضح کرنے والی بہت زیادہ احادیث ہیں۔جو خلع کی ضرورت واہمیت کواپنے اندر سمو ئے ہوئے ہیں۔لیکن ان میں سے ایک حدیث اس سلسلے میں مرکزی کردار اداکرتی ہے جس کوذکرکیاجاتاہے: ’’إن إمرأۃ ثابت بن قیس أتت النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالت یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثابت بن قیس ما اعتبت علیہ فی خلق و لادین ولکنی اکرہ الکفر فی الإسلام فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اتردین علیہ حدیقتہ فقالت نعم قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اقبل الحدیقۃ وطلقہا تطلیقۃ‘‘۴۲؎ ’’بے شک ثابت بن قیس کی بیوی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی،کہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت بن قیس کی دینداری اور اخلاق کا میں کچھ عیب نہیں کرتی،مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ہو کر خاوند کی ناشکری کے گناہ میں مبتلا ہو ں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا جوباغ ثابت نے تجھ کو مہر میں دیا ہے وہ تم اس کو واپس کرسکتی ہو،اس نے کہا،جی ہاں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت سے فرمایا،اپنا باغ واپس لے لے اور ایک طلاق اس کو دے دے۔‘‘ خلع کے الفاظ فقہاء کی رائے ہے کہ خلع کے لیے لفظ خلع یااس سے مشتق لفظ ضروری ہے یاوہ لفظ جواس کامعنی دے جیسے ’مبارات اور فدیہ ہے۔اگرلفظ خلع نہ ہو یااس کے معنی والالفظ نہ ہو مثلاوہ کہے تجھے اتنی رقم کے بدلے میں طلاق ہے۔عورت نے اسے قبول کرلیا تویہ حال پرطلاق ہوگی،خلع نہ ہوگا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مذکورہ رائے پربحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جوشخص معاملات کے حقائق اور ان کے مقاصدپرالفاظ کی بجائے،نظررکھتاہے وہ خلع کوفسخ شمارکرتاہے۔وہ کسی بھی لفظ کے ساتھ ہوخواہ لفظ طلاق سے ہی ہو۔‘‘۴۳؎ آیت خلع سے استدلال واستنباط اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا إِلاَّ اَنْ یَخَافَا اَلَّا یُقِیْمَاحُدُوْد اللّٰہ فَاِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیْمَ حُدُوْدَ فَلَا
Flag Counter