Maktaba Wahhabi

93 - 112
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ۔۔۔۔۔ (الاحقاف 46؍29) ’’اور جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو آپ کی طرف لائے جو قرآن سن رہے تھے اور وہ اس مقام پر پہنچے تو کہنے لگے خاموش ہوجاؤ پھر جب قرآن پڑھا جاچکا تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کے پاس لوٹے۔‘‘ غور فرمائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہر سے قرآن پڑھ رہے تھے اور جنوں کی جماعت قرآن سن رہی تھی اگر جہر سے اللہ کو یاد کرنا یا دعا کرنا یا قرآن کی تلاوت کرناغلط ہوتاتو کبھی بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن جہر سے نہ پڑھتے یہ مصنف کی گھناؤنی سازش ہے جو سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہی میں مبتلا کرکے حدیث سے پھیرنا چاہتا ہے۔ بلکہ قرآن تو یہاں تک ارشاد فرماتا ہے : ’’وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً ‘‘ (الاسراء 17؍110) ’اور آپ اپنی صلاۃ نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں نہ بالکل پست آواز سے بلکہ ان کے درمیانی لہجہ اپنایئے۔ ‘‘ آیت مبارکہ قرأت کے لئے درمیانی چال چلنے کا حکم دیتی ہے نہ زیادہ جہر سے نہ زیادہ ہلکہ ،بالکل اسی طریقے آمین کہنا مشروع ہے ،نہ زیادہ جہر سے نہ اتنا پست کہ آواز ہی سنائی نہ دے۔ لہٰذا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرماتے تھے تو جنوں کی جماعت سنتی تھی اور بہت ساری احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کون کونسی سورۃکی تلاوت فرمائی ان سورتوں کی معلومات ان ہی صورتوں میں ممکن ہے کہ قرأت جہر کے ساتھ (یعنی درمیانی راہ میں )کی جائے۔ جس طریقے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہری نماز وں میں قرأت فرمایا کرتے تھے بالکل اسی معیار پر آمین کہتے تھے ، کسی حدیث میں یہ نہیں آیا کہ آمین کسی صحابی نے چلّا کر کہی ہوبلکہ احادیث میں واضح صراحت موجود ہے کہ : ’’کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اذاتلا’’غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین ‘‘ قال آمین حتی یسمع من یلیہ من الصف الاول‘‘ (ابو داؤد 934) ’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ’’غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین‘‘فرمایا آمین یہاں تک کہ (آمین کی آواز) پہلی صف میں سنی گئی‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ آمین ‘‘کی آواز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی صف تک پہنچی اگر آمین کی
Flag Counter