Maktaba Wahhabi

64 - 112
استغفار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اس لئے اس کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا۔ ان الفاظ کے بعد مصنف نے اپنی عادت قبیحہ کے مطابق انتہائی غیر اخلاقی الفاظ کا اعادہ کیا۔ جواب :۔ قارئین کرام بڑی عجیب بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو صاحب وحی تھے کو نعوذباللہ قرآن سمجھ میں نہ آیا لیکن مصنف کو بہترین انداز میں قرآن سمجھ میں آگیا۔ جس ذات کو اللہ تعالیٰ نے مفسر اورمعلم قرآن بنایا وہ مصنف کی نگاہ میں قبول نہیں کیا عجیب انصاف ہے ؟مصنف نے نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کریم پر بھی الزامات عائد کئے ہیں مصنف لکھتا ہے کہ ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا تھا پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھا۔ مصنف کا یہ کہنا قرآن کریم پر افتراء ہے بلکہ قرآن کریم میں ہے : ’’ إِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ۔ ۔۔۔۔‘‘ (التوبۃ 9؍80) ’’اگر آپ ان (منافقوں )کیلئے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے اللہ ان کو معاف نہیں کر ے گا ۔‘‘ یہی آیت عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت پیش کی تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھانے کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً مسکراتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ سترّمرتبہ سے زیادہ استغفار اس کے گناہ معاف کراسکتا ہے تو میں یقینا سترّ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرونگا۔ اب قرآن کریم پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ استغفار کے بارے میں فرمایا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ اس لئے پڑھایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں آپ نے اپنی رحمت کو مقید نہ کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے یعنی اس وقت نماز جنازہ کی ممانعت وارد نہ ہوئی تھی صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے ستر بار بھی استغفار سے یہ منافق بخشے نہ جائیں گے لیکن ابھی اختیار باقی تھا جب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا تھا بعد میں وہ خود فرماتے ہیں (کہ انہوں نے استغفار کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
Flag Counter