Maktaba Wahhabi

46 - 112
دائرہ انسانیت میں بھی رہنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ۔۔۔لیکن بخاری صاحب۔ ۔۔۔بے لگان اتہام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے ہیں کہ ’’زفت امرأ ۃ الی رجل من الانصار۔ ۔۔۔‘‘ ’’پہنچائی گئی ایک عورت بذریعہ شادی ایک انصاری مرد کیطرف تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عائشہ کیا کچھ ہے تمہارے پاس لہو یعنی گانے بجانے خوش گپیاں عیش ونشاط کی چیزوں سے۔ ۔۔‘‘ (بخاری 2؍775) گانے بجانے کی توتیاں ربانے طبلے اللہ کے راستے سے روکنے کا سبب بنتے ہیں تو پھر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاریوں کو قرآن کے خلاف تربیت دیتے رہے تھے؟اور کیا اپنے گھر بھی ایسی فحش چیزیں اور لہویات رکھا کرتے تھے ؟۔۔۔ جواب :۔ مصنف نے جس دیدہ دلیری سے حدیث کے متن میں تحریف کی ہے تاریخ میں ایسے تحریف کرنے والا شاید ہی کوئی ہو قرآن کریم کی آڑمیں مصنف نے احادیث کے انکار کا جو طرز اختیار کیا ہے وہ ناقابل معافی جرم ہے۔ مصنف نے صحیح حدیث کے متن میں تحریف کرکے اسے قرآن کے خلاف ٹہرایا ہے یہی طریقہ مستشرقین کا رہا ہے یعنی مصنف مستشرقین کا ایجنٹ معلوم ہوتا ہے گویا یہ یہود اور نصاری کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔قرآن کریم کی جو آیت مصنف نے پیش کی ہے کہ : ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِعِلْم‘‘(سورہ لقمان 31؍6) ’’لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو اس لئے بے ہودگی خریدتا ہے کہ بغیر علم کے اللہ کی راہ سے بہکادے ۔‘‘ اس آیت کے پیش کرنے کے بعد مصنف لہو ولعب گانا بجانا بانسری وغیرہ کوحرام قرار دے رہا ہے۔ لیکن کوئی مصنف سے یہ تو پوچھے کہ’’لَہْوَ الْحَدِیْثِ ‘‘’’بے ہودگی‘‘سے مرادکیا گانا بجانے ہے یعنی اس آیت میں تو صرف بے ہودگی کا ذکر ہے بانسری کا ذکر تو ہے ہی نہیں آخر مصنف نے یہ سارے نتیجے کہاں سے اخذ کئے؟ شاید ابلیس نے اس کے کان میں یہ مطلب پھونک دیا۔قارئین اندازہ فرمائیں ایک جگہ تو مصنف
Flag Counter