Maktaba Wahhabi

51 - 175
ثالثاً ان قوانین کی پابندی صرف وہ اقوام کرتی ہیں جو باقاعدہ اس معاہدے میں شریک ہوتی ہیں دیگر اقوام ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوتی ہیں۔ جہاد اسلامی کے قواعدوضوابط اور دنیاوی جنگوں کی خود ساختہ قوانین میں اس بنیادی فرق کی وضاحت کے بعد ہم جہاد اسلامی اور اقوام مغرب کی جنگوں کے بعض امور کا تقابلی جائزہ پیش کررہے ہیں جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گاکہ تاریخ کے میزان عدل میں خون ریزی،غارت گری،دہشت گردی، درندگی، سفاکی اور بربریت اقوام مغرب کی جنگوں کے پلڑے میں ہے یا جہاد اسلامی کے پلڑے میں؟ 1۔ آداب قتال: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران جہاد مختلف مواقع پر جو ہدایات ارشاد فرمائیں وہ درج ذیل ہیں: 1۔ دوران جہاد دشمن کے مقتولین کا مثلہ نہ کرنا۔(بخاری)2۔دشمن کی املاک میں لوٹ مار نہ کرنا۔ (ابوداؤد) 3۔ دشمن کو اذیت دے کر قتل نہ کرنا۔(ابوداؤد)4۔ زیردست دشمن کو آگ میں نہ جلانا۔ (بخاری) 5۔ دشمن کو امان دینے کی بعد قتل نہ کرنا۔(ابن ماجہ)6۔ دشمن کو دھوکے سے قتل نہ کرنا۔ (ابوداؤد) جنگ موتہ کے لئے لشکر اسلام کو روانہ کرتے ہوئے درج ذیل ہدایات فرمائیں: 1۔ بدعہدی نہ کرنا2۔خیانت نہ کرنا3۔کسی بچے،بوڑھے اور درویش کو قتل نہ کرنا4۔کھجور یا کوئی دوسرا درخت نہ کاٹنا5۔کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔[1] حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کرتے ہوئے درج ذیل ہدایات فرمائیں: 1۔ خیانت نہ کرنا2۔مال نہ چھپانا3۔بے وفائی نہ کرنا4۔مثلہ نہ کرنا5۔بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا6۔ہرے بھرے اور پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا7۔کھانے کے علاوہ جانوروں کو بے کار ذبح نہ کرنا۔[2] ایک فوجی مہم میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے غلط فہمی سے کچھ لوگ مارے گئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا’’اے اللہ!خالد نے جو کچھ کیاہے میں اس سے بری الذمہ ہوں۔‘‘(بخاری) بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادافرمایا۔ جنگ بدرسے چند یوم پہلے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والہ محترم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ آرہے تھے کہ کافروں نے روک لیااور اس وعدہ پر مدینہ جانے کی اجازت دی کہ اگر جنگ ہوئی تو تم اس میں حصہ نہیں لوگے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے وعدہ کرلیا اور مدینہ پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو
Flag Counter