Maktaba Wahhabi

284 - 332
ہوسکتا۔ ‘‘ بعض لوگ اشاعرہ کو اہل سنت والجماعت کا ہر اول دستہ شمار کرتے ہیں جیسا کہ عبد القاہر بن طاہر بغدادی متوفی سنہ ۴۲۹ھ اپنی کتاب ’’ الفرَقُ بَین الفِرَق ‘‘ صفحہ ۳۱۳ پر لکھتا ہے: ’’جان لو ! کہ اہل سنت والجماعت کی آٹھ قسمیں ہیں ۔ ان میں سے ایک قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے علم سے توحید ونبوت کے دروازوں ، و عدوعیدکے احکام، ثواب و عقائد کے اسباب ، اجتہاد اور امامت وقیادت کی شرائط کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اور اس قسم کے علم میں وہ متکلمین میں سے صفاتیہ کی راہ پر چلے ہیں جنہوں نے تشبیہ ، تعطیل اور رافضہ ،خوارج ، جہمیہ ، نجاریہ اور تمام گمراہ کن خواہشات کے بندوں کی بدعات سے علیحدگی اختیار کی۔ ‘‘ بعض متأخرین کا خیال ہے کہ امت مسلمہ نے عقائد کے معاملہ میں اپنی نگاہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کے ہاتھ میں دے رکھی ہیں ۔ سعید حوی اپنی کتاب ’’ جولات فی الفقہین‘‘ کے صفحہ ۲۲، ۶۶، ۸۱، ۹۰پر لکھتا ہے: ’’ امت مسلمہ نے عقائد کے معاملہ میں دو بندوں کے فیصلوں کو تسلیم کیا لیا ہے ۔ ایک ابو الحسن اشعری ، دوسرے ابو منصور ماتریدی۔ ‘‘ اور زبیدی ’’ اتحاف السادۃ المتقین ‘‘ (۲/۶) میں لکھتا ہے: ’’ جب اہل سنت و الجماعت کا لفظ مطلق بو لا جائے تو اس سے مراد اشاعرہ اور ماتریدیہ ہوتے ہیں ۔ ‘‘ ’’اہل سنت و الجماعت ‘‘ کی اصطلاح اس قدر وسیع ہو چکی ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی داخل ہو جا تے ہیں جو عقیدے میں خصوصاً اللہ تعالیٰ کی صفات کے معاملے میں انحراف کا شکار ہیں ۔ لہٰذا فرقہ ناجیہ، طائفہ منصورہ، غرباء اور اہل حدیث کی پہچان کے لیے لفظ ’’ سلفیّت‘‘ استعمال کر نا چاہیے۔ لفظ ’’ اہل سنت والجماعت‘‘ کے استعمال پر اصرار کرنیوالے بعض لوگ کہتے ہیں :
Flag Counter