1.اس آیت ِ کریمہ سے کسی ثقہ امام نے نماز ِ جنازہ کے متصل بعد اجتماعی ہیئت سے بالالتزام دعا کا جواز ثابت نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ استدلال خطاہے ۔ 2.سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ تفسیر ثابت نہیں ، کیونکہ پہلی روایت میں علی بن ابی طلحہ کا سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ، دوسری میں سلسلۃ الضّعفائہے، یعنی سعد بن محمد بن حسن بن عطیہ بن سعد عوفی اور اس کا چچا حسین بن حسن بن عطیہ عوفی اورحسن بن عطیہ عوفی اور عطیہ عوفی، سب ’’ضعیف‘‘ ہیں ۔ ضحاک کی روایت حُدِّثْتُ(مجھے بیان کیا گیا ہے)، یعنی جہالت کے وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔لہٰذا یہ دونوں روایتیں ’’ضعیف‘‘ ہوئیں ۔ 3.مقاتل خود ’’ضعیف‘‘ ہے ۔ 4.کلبی خود کذاب اور متروک ہے ۔ 5.اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (فَإِذَا فَرَغْتَ) مِنْ صَلَاتِکِ (فَانْصَبْ) فِي الدُّعَائِ ۔ ’’جب نماز سے فارغ ہوں ، تو دعا میں رغبت کریں ۔‘‘ (تفسیر الطّبري : 30/152، وسندہٗ صحیحٌٌ) اس صحیح تفسیر میں نماز جنازہ کا ذکر نہیں ہے، دوسرے یہ کہ اس میں اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کا ذکر نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جب نماز سے فارغ ہوں تو دعا میں کوشش کریں ، یعنی اذکار مسنونہ پڑھیں یا اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ جب دنیاوی امور سے فارغ ہو جائیں ، تو عبادت میں خوب محنت کریں ۔ |