قبر پر اذان کی شرعی حیثیت دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا بدعت ہے،احادیث میں اس کی اصل نہیں اور نہ صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین اور سلف صالحین کے زمانہ ہی میں اس کا وجود ملتا ہے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا یا میت کے لئے نفع مند ہوتا تو صحابہ ضرور ایساکرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے معانی، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھتے اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں گزارتے تھے ۔ ائمہ اربعہ سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں ،احناف کی امہات الکتب میں تو اس کا ذکر ہی نہیں ملتا البتہ بعض حنفی علماء نے اس کے عدم جواز کا فتوی دیا ہے اور اس کے بدعت ہونے پر صراحت کی ہے۔ 1.درِّ بحار میں ہے : مِنَ الْبِدَعِ الَّتِي شَاعَتْ فِي بِلَادِ الْھِنْدِ الْـأَذَانُ عَلَی الْقَبْرِ بَعْدَ الدَّفْن ۔ ’’ہندوستان میں عام ہونے والی بدعتوں میں سے ایک بدعت دفن کے بعد اذان کہنا بھی ہے ۔‘‘(منقول از جاء الحق : 1/318) 2.محمود بلخی کہتے ہیں : اَلْـأَذَانُ عَلٰی قَبْرٍ لَیْسَ بِشَيْئٍ ۔ |