’’قبر پر اذان کہنا کچھ نہیں ہے ۔‘‘ (منقول از جاء الحق : 1/318) 3.علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’میت کو قبر میں داخل کرتے وقت مروّج اذان سنت نہیں ، حافظ ابن حجر مکی نے اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے اسے بچے کے کان میں اذان دینے پر قیاس کرتے ہوئے اسے سنت سمجھا، تاکہ خاتمہ ابتدا سے مماثلت اختیار کر جائے، وہ درستی کو نہیں پہنچا۔‘‘ ( فتاوی شامی : 2/235، جاء الحق : 1/318-317) تنبیہ : شامی صاحب نے بعض شوافع کی کتب سے اذان کے مواقع ذکر کیے ہیں ، ان میں سے ایک میت کو قبر میں اتارتے وقت کی اذان کا ذکر کیا ہے، ساتھ لکھا ہے : لٰکِنْ رَدَّہُ ابْنُ حَجَرٍ فِي شَرْحِ الْعُبَابِ ۔ ’’لیکن ابن حجر (مکی) نے ’’شرح العباب ‘‘میں اس کا رد کیا ہے ۔‘‘ تو نعیمی صاحب نے لکھا : ’’اولا تو ابن حجر (مکی) شافعی ہیں ، بہت سے علما جن میں بعض احناف بھی شامل ہیں ، فرماتے ہیں کہ اذان قبر سنت ہے اورامام ابن حجر شافعی اس کی تردید کرتے ہیں ، تو بتاؤ کہ حنفیوں کو مسئلہ جمہور پر عمل کرنا ہوگا کہ قول شافعی پر۔‘‘ (جاء الحق : 1/316) شامی صاحب نے شوافع کی کتاب سے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کا ذکر |