رقص کی شرعی حیثیت رقص بے دین صوفیا کی ایجاد ہے۔ یہ بالاجماع ممنوع ہے، سلف صالحین وائمہ دین میں سے کوئی بھی ا س کا قائل وفاعل نہیں رہا، البتہ اہل علم سے اس کی مذمت اور ممانعت ثابت ہے ۔ ٭ علامہ عینی رحمہ اللہ (855ھ) کہتے ہیں : لَا اعْتِبَارَ لِمَا أَبْدَعَتْہُ الْجَہَلَۃُ مِنَ الصُّوْفِیَّۃِ فِي ذٰلِکَ فَإِنَّکَ إِذَا تَحَقَقْتَ أَقْوَالَہُمْ فِي ذٰلِکَ وَرَأَیْتَ أَفْعَالَہُمْ وَقَفْتَ عَلٰی آثَارِ الزَّنْدَقَۃِ مِنْہُمْ ۔ ’’( غنا وغیرہ کے نام پر) جاہل صوفیا نے جو بدعات نکالی ہیں ، ان کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ آپ جب اس بارے میں ان کے اقوال کی تفتیش کریں گے اور ان کے افعال دیکھیں گے، تو ان میں بے دین وزندیق لوگوں کی علامات پائیں گے۔‘‘ (عمدۃ القاري : 21/401) رقص غیر شرعی رسم ہے، جو دین کے نام پر جاری کردی گئی ہے، لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ نہیں ہوسکتی۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) لکھتے ہیں : قَدِ انْعَقَدَ إِجْمَاعُ الْعُلَمَائِ أَنَّ مَنِ ادَّعَی الرَّقْصَ قُرْبَۃٌ إِلَی اللّٰہِ |