میں ) حاضر ہونا لازم نہیں آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لینا اس لیے ہے کہ تعظیم ظاہر نہ ہو اور یہ تلقین نہ بن جائے، امتحان کے مناسب یہی بات ہے۔‘‘ (حاشیۃ السّندي علی سنن ابن ماجہ، تحت الحدیث : 4258، حاشیۃ السّندي علی النّسائي : 4/97، تحت الحدیث : 2052) فائدہ جلیلہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غیر حاضر پایا تو اس کے بارے میں پوچھا، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا، وہ فوت ہوگئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أَفَلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي قَالَ : فَکَأَنَّہُمْ صَغَّرُوا أَمْرَہَا أَوْ أَمْرَہٗ فَقَالَ : دُلُّونِي عَلٰی قَبْرِہَا فَدَلُّوہُ، فَصَلّٰی عَلَیْہَا ۔ ’’آپ نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟ گویا انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے اس کی قبر کی رہنمائی کریں ، صحابہ نے اس کی قبر پر رہنمائی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔‘‘ (صحیح البخاري : 1337، صحیح مسلم : 956، واللّفظ لہٗ) اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر میت کی قبر میں بوقت سوال حاضر ہوتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کے فوت ہونے کی اطلاع کیوں نہ تھی؟ الحاصل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وقت ِ سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے۔ |