Maktaba Wahhabi

93 - 354
الشَّیْطَانِ﴾(الأنعام : 142)(کھاؤ اس کو جو تمہیں اللہ نے دیا اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو)۔‘‘ (جاء الحق : 362/1) بحیرہ والی آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نہیں ،بلکہ اس بارے میں مشرکین نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے۔ان جانوروں کی حلت و حرمت کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا،جبکہ ﴿وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ والی آیت سے معلوم ہو گیا کہ یہ جانور حرام ہیں ۔مفتی صاحب نے جو آیت ذکر کی ہے، اس میں بحیرہ وسائبہ وغیرہ کی حلت کا کوئی ذکر نہیں ۔اس آیت میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے رزق کو کسی کے نام منسوب کر کے حرام کرنا کفار کا کام ہے، آپ ایسا نہ کرنا،اگر تم کفار کی تقلید میں ایسے جانور مقرر کرو گے تو شیطان کی پیروی کرو گے۔ کسی بھی مفسر نے اس آیت ِکریمہ کی رُو سے بحیرہ وغیرہ کو حلال قرار نہیں دیا اور یہ نہیں کہا کہ اس آیت میں بحیرہ وغیرہ کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ جو بحیرہ وغیرہ کفار نے مقرر کیے تھے، وہ انہی کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنے بتوں کے نام کیے ہوئے تھے،مسلمانوں کو کیسے حکم دیا جا سکتا تھاکہ وہ انہیں کھائیں ؟ رہے حافظ نووی رحمہ اللہ تو ان کا یہ قول قرآن و سنت اور فہم سلف کے خلاف ہونے کی بنا پر خطاہے۔سلف صالحین اور ائمہ دین و محدثین میں سے کوئی بھی ان کا ہمنوا نہیں ۔ کیا صحابہ کرام،تابعین عظام اور ائمہ دین سے غیر اللہ کے لیے جانور چھوڑنا اور بزرگوں کی نذر کر کے انہیں ذبح کرناثابت ہے؟کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کوئی جانور چھوڑا ؟ کسی تابعی نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سمیت کسی صحابی کے نام پر کوئی جانور چھوڑا ہو؟ کسی تبع تابعی نے کسی تابعی کے نام پر یا کوئی جانور منسوب کیا ہو؟
Flag Counter