اگر یہ جائز ہوتا، اور یہ نیکی کا کام ہے،تو صحابہ کرام سے بڑھ کر کون نیکیوں کا متلاشی تھا؟ کیا صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں تھی،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بزرگوں اور پیروں سے ہے؟صحابہ و تابعین اور ائمہ دین اس ’’کارِخیر‘‘ سے کیونکر محروم رہے؟ ہم یہ بھی پوچھیں گے کہ جب غیراللہ ،مثلا مُردوں اور غائب پیروں کو پکارنے کی نفی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں آیات ِقرآنیہ پیش کی جاتی ہیں تو ان کاجواب کچھ یوں ہوتا ہے :’’یہ آیات تو بتوں کے لیے ہیں ،جو آپ اولیاء اللہ پر فٹ کر رہے ہیں ۔اولیاء اللہ بھلا غیراللہ ہوتے ہیں ؟ وہ غیر اللہ نہیں ،بلکہ اللہ کے دوست ہیں ۔۔۔ ‘‘ وغیرہ۔ لیکن یہاں پر ان کا طرز عمل مختلف ہے۔جب غیراللہ کے نام کے ذبیحے کی بات آتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیا جائے تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔اس موقع پر انہیں شاید یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کے نزدیک اولیاء اللہ غیراللہ نہیں ہوتے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ذبح کرتے وقت بھی اولیاء اللہ کا نام لینا جائز قرار دے دیں ، ورنہ پکار کے حوالے سے بھی اپنے غیراللہ کے نظریے پر نظر ثانی کر لیں ۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقیدۂ توحید کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنے اور اسی پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے،نیز اسی پر موت نصیب فرمائے۔ آمین! |