علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (792ھ)لکھتے ہیں : صَارُوا یَبْتَدِعُونَ مِنَ الدَّلَائِلِ وَالْمَسَائِلِ مَا لَیْسَ بِمَشْرُوعٍ، وَیُعْرِضُونَ عَنِ الْـأَمْرِ الْمَشْرُوعِ ۔ ’’اہل بدعت ایک طرف توایسے دلائل ومسائل تراشتے ہیں ، جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، دوسری طرف مشروع کام سے بھی اعراض کرتے ہیں ۔‘‘ (شرح العقیدۃ الطّحاویۃ، ص 593) گیارہویں قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں : گیارہویں اگر قرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہوتی، تو ائمہ اہل سنت ضرور ایسا کرتے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ)لکھتے ہیں : إِنَّ بَابَ الْعِبَادَاتِ وَالدِّیَانَاتِ وَالتَّقَرُّبَاتِ مُتَلَقَّاۃٌ عَنِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ فَلَیْسَ لِأَحَدٍ أَنْ یَّجْعَلَ شَیْئًا عِبَادَۃً أَوْ قُرْبَۃً إلَّا بِدَلِیلٍ شَرْعِيٍّ ۔ ’’عبادات، دین کے مسائل اور قرب ِ الٰہی کے کام اللہ ورسول سے ہی لیے جاتے ہیں ۔ کسی اور کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دلیل شرعی کے بغیر کوئی عبادت یا قرب ِ الٰہی کا طریقہ گھڑ لے۔‘‘ (مجموع الفتاوٰی : 35/31) اگر گیارہویں کے ثبوت پر کوئی شرعی دلیل ہوتی، تو سلف صالحین ضرور اس کا اہتمام کرتے، لہٰذا یہ بے ثبوت ہے، جو قرب ِ الٰہی کا ذریعہ نہیں ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ)لکھتے ہیں : لَا دِینَ إلَّا مَا شَرَعَہٗ، فَالْـأَصْلُ فِي الْعِبَادَاتِ الْبُطْلَانُ حَتّٰی |