مَنْ تَعَبَّدَ بِعِبَادَۃٍ لَّیْسَتْ وَاجِبَۃً وَلَا مُسْتَحَبَّۃً؛ وَہُوَ یَعْتَقِدُہَا وَاجِبَۃً أَوْ مُسْتَحَبَّۃً فَہُوَ ضَالٌّ مُّبْتَدِعٌ بِدْعَۃً سَیِّئَۃً لَا بِدْعَۃً حَسَنَۃً بِاتِّفَاقِ أَئِمَّۃِ الدِّینِ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یُعْبَدُ إلَّا بِمَا ہُوَ وَاجِبٌ أَوْ مُسْتَحَبٌّ ۔ ’’جو شخص ایسی عبادت کرتا، جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہوتی اور وہ اسے واجب یا مستحب سمجھتا ہے، وہ شخص گمراہ بدعتی ہے، اس کی یہ بدعت سیئہ ہے، حسنہ نہیں ہے اور اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔ اللہ کی عبادت صرف اسی طریقے سے کی جائے گی، جو شریعت میں واجب یا مستحب ہے۔‘‘ (مَجموع الفتاوٰی : 1/160) علامہ شاطبی رحمہ اللہ (790ھ)لکھتے ہیں : فِي کَثِیرٍ مِّنَ الْـأُمُورِ یَسْتَحْسِنُونَ أَشْیَائَ، لَمْ تَأْتِ فِي کِتَابٍ وَّلَا سُنَّۃٍ، وَّلَا عَمِلَ بِأَمْثَالِہَا السَّلَفُ، فَیَعْمَلُونَ بِمُقْتَضَاہَا، وَیُثَابِرُونَ عَلَیْہَا، وَیُحَکِّمُونَہَا طَرِیقًا لَّہُمْ مَہِیعًا وَّسُنَّۃً لَّا تُخْلَفُ، بَلْ رُبَّمَا أَوْجَبُوہَا فِي بَعْضِ الْـأَحْوَالِ ۔ ’’اہل بدعت بہت سے امور میں ان کاموں کو مستحب قرار دے دیتے ہیں ، جن پر کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، نہ ہی سلف صالحین نے اس طرح کا کوئی کام کیا ہوتاہے۔ بدعتی اس طرح کے کام کرتے ہیں ، ان پر دوام کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے واضح راستہ اور سنت غیر معارضہ سمجھتے ہیں ، بلکہ بسا اوقات اسے واجب قراردیتے ہیں ۔‘‘ (الاعتصام : 1/212) |