نیز لکھتے ہیں : لِہٰذَا کُلِّہٖ یَجِبُ عَلٰی کُلِّ نَاظِرٍ فِي الدَّلِیلِ الشَّرْعِيِّ مُرَاعَاۃُ مَا فَہِمَ مِنْہُ الْـأَوَّلُونَ، وَمَا کَانُوا عَلَیْہِ فِي الْعَمَلِ بِہٖ؛ فَہُوَ أَحْرٰی بِالصَّوَابِ، وَأَقْوَمُ فِي الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ ۔ ’’ان تمام امورکے پیش نظر شرعی دلیل میں غور کرنے والے ہرشخص کے لیے سلف کے فہم وعمل کا پاس رکھنا ضروری ہے، کیونکہ یہی درستی کے زیادہ قریب اور علم وعمل میں زیادہ پختہ ہے ۔‘‘ (المُوافقات : 3/77) 2.حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (744ھ)لکھتے ہیں : لَا یَجُوْزُ إِحْدَاثُ تَأْوِیْلٍ فِي آیَۃٍ أَوْ سُنَّۃٍ لَمْ یَکُنْ عَلٰی عَہَدِ السَّلَفِ وَلَا عَرَفُوہُ وَلَا بَیَّنُوہُ لِلْـأُمَّۃِ، فَإِنَّ ہٰذَا یَتَضَمَّنُ أَنَّہُمْ جَہِلُوا الْحَقَّ فِي ہٰذَا وَضَلُّوْا عَنْہُ، وَاہْتَدٰی إِلَیْہِ ہٰذَا الْمُعْتَرِضُ الْمُسْتَأْخِرُ ۔ ’’کسی آیت یا حدیث کا ایسا مفہوم ومطلب بیان کرناجائز نہیں ، جو زمانہ سلف میں نہ تھا، نہ انہوں نے اسے پہچانا اور نہ امت کے لیے بیان کیا ۔ اگر آپ اس طرح کا مفہوم بیان کرتے ہیں ، تو لازم آئے گا کہ سلف اس بارے میں حق سے جاہل رہے اور اس سے گم راہ رہے ہیں اور یہ بعد میں آنے والا معترض اس کی طرف راہ پاگیا ہے ۔‘‘ (الصّارم المُنکي فی الرّد علی السّبکي، ص 318) |