ہٰذَا الْمَفْہُومِ وَمُعَارِضٌ لَّہٗ، وَلَوْ کَانَ تَرْکَ الْعَمَلِ؛ فَمَا عَمِلَ بِہِ الْمُتَأَخِّرُونَ مِنْ ہٰذَا الْقِسْمِ مُخَالِفٌ لِّإِجْمَاعِ الْـأَوَّلِینَ، وَکُلُّ مَنْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ؛ فَہُوَ مُخْطِیٌٔ، وَأُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ، فَمَا کَانُوا عَلَیْہِ مِنْ فِعْلٍ أَوْ تَرْکٍ؛ فَہُوَ السُّنَّۃُ وَالْـأَمْرُ الْمُعْتَبَرُ، وَہُوَ الْہُدٰی، وَلَیْسَ ثَمَّ إِلَّا صَوَابٌ أَوْ خَطَأٌ؛ فَکُلُّ مَنْ خَالَفَ السَّلَفَ الْـأَوَّلِینَ فَہُوَ عَلٰی خَطَأٍ، وَہٰذَا کافٍ ۔ ’’اگر اس پر کوئی دلیل ہوتی، تو ایسا نہیں کہ فہم صحابہ وتابعین سے غائب رہتی اور بعد میں یہ لوگ اسے سمجھ لیتے۔یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ شرعی دلیل ایک مفہوم کا تقاضا کرتی ہو اور سلف کا عمل اس کے خلاف ہو ؟یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ سلف نے کسی کام کی دلیل ہونے کے باوجود وہ نہ کیا ہو؟ اس طرح کے معاملات میں متاخرین نے جو عمل کیا ہے، وہ اجماع سلف کے خلاف ہے اور اجماع کی مخالفت کرنے والاخود خطاکار ہوتاہے، کیونکہ اُمت ِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی، لہٰذا سلف جس کام کو کرنے یا چھوڑنے پر متفق ہوں ، وہی سنت اور معتبر ہے اور وہی ہدایت ہے۔ کسی کام میں دو ہی احتمال ہوتے ہیں ، درستی یا غلطی، جو سلف صالحین کی مخالفت کرے گا، وہ خطا پر ہوگا اوریہی اس کے خطا کار ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘ (المُوافقات : 3/72) |