لِاخْتِلَافِ الزَّمَانِ وَکَثْرَۃِ الشَّوَاغِلِ عَلَی الْقُلُوبِ فِیمَا بَعْدَ زَمَنِ التَّابِعِینَ ۔ ’’ہمارے مشائخ میں سے جنہوں نے کہا ہے کہ الفاظ سے نیت کرنا سنت ہے، ان کی مراد سنت نبوی نہیں ، بلکہ بعض مشائخ کا طریقہ مراد ہے، جو انہوں نے تابعین کے دور کے بعد زمانہ مختلف ہو جانے اور دل پر مشغولیت بڑھ جانے کی وجہ سے جاری کر دیا تھا۔‘‘ (مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ص 84) علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (۱۰۱۴ھ) نقل کرتے ہیں : ’’ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی نیت الفاظ سے کی ، لہٰذا ہم نے اسے تمام عبادات پر قیاس کر لیا۔ ہم کہتے ہیں :… ایسی کوئی روایت موجود نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو، میں حج کی نیت کرتا ہوں ، بلکہ روایت یوں ہے کہ اللہ! میں حج کا اراد ہ کرتا ہوں ۔ یہ تو دعا ہے۔ خبر نیت کے قائم مقام تب ہو گی، جب اسے انشا بنایا جائے، جو کہ عقد (لین دین) میں ہوتا ہے، نیز عقد انشائی غیر معلوم چیز ہے۔ اس احتمال کے باوجود بھی استدلال درست نہیں اور اسے مقیس علیہ بنانا صحیح نہیں ، بلکہ محال ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ الفاظ سے نیت کے عدم ورود سے اس کا عدم لازم نہیں آتا۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے، جب تک ورود (ثبوت) نہ ہو، تب تک عدم وقوع ہی لازم آئے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نماز کے |