لیے کھڑے ہوتے، تو اللہ اکبر کہتے تھے، اگر آپ کوئی اور الفاظ بولتے، تو صحابہ کرام اسے نقل کر دیتے، نیز مسیء الصلوٰۃ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : جب آپ نماز پڑھنے لگیں ، تو اللہ اکبر کہیں …۔ یہ دلیل ہے کہ نیت کے الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا : آپ تکبیر تحریمہ سے پہلے کچھ پڑھتے ہیں ؟ فرمایا : نہیں ۔‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح : 1/42) علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ (۱۳۰۴ھ) لکھتے ہیں : ’’یہاں تین صورتیں بنتی ہیں : 1. صرف دل کی نیت پر اکتفا کر لینا، اتفاق ہے کہ یہ کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی طریقہ مروی ہے۔ نیز ان میں کسی سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ میں نے فلاں نماز کی فلاں وقت میں نیت کی یا نیت کرتا ہوں ، وغیرہ۔ ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں یہ بات واضح کر دی ہے۔ 2. صرف الفاظ سے نیت کرنا، دل کا ارادہ و قصد نہ ہو، یہ بالاتفاق نا کافی ہے۔ 3. دونوں کو جمع کرنا، تحفۃ الملوک کے مطابق یہ سنت ہے، جو کہ درست نہیں اور ’المنیۃ‘ کے مطابق یہ مستحب ہے، یعنی علما کا فعل ہے اور انہوں نے اسے مستحب کہا ہے، ایسا نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا یا آپ نے اس کی ترغیب دلائی تھی، کیوں کہ یہ بالکل ثابت نہیں ۔ احناف نے اسے مستحب اور مستحسن کہنے کی علت یہ بتائی ہے کہ اس سے دل وزبان |