لیے بیٹھا، اس نے وضو کی نیت کی اور جو نماز کے لیے کھڑا ہوا ، اس نے نماز کی نیت کی۔ کوئی عقلمند آدمی کسی کام کو، چاہے وہ عبادات ہوں یا کوئی اور کام، بغیر نیت کے نہیں کر سکتا، لہٰذا نیت انسان کے مقصود افعال کے ساتھ لازم ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کی مشقت یا حصول کی ضرورت نہیں ۔ اگر کوئی اپنے اختیاری افعال میں نیت کو ختم کرنا بھی چاہے، تو نہیں کر سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے نماز اور وضو بغیر نیت کے ادا کرنے کا مکلف بناتا، تو یہ تکلیف مالا یطاق کی قبیل سے ہوتا، جو اس کے بس کی بات نہیں تھی۔تو حصول نیت کے لیے مشقت اٹھانے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر نیت کے ہونے میں شک گزرے، تو یہ جنون (پاگل پن) کی قسم ہے، کیوں کہ انسان کا اپنی حالت کو جاننا یقینی امر ہے۔ ایک عقل منداپنے آپ کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟ مثلاً اگر کوئی امام کی اقتدا میں ظہر ادا کرنے لگے، تو وہ اس میں کیسے شک کر سکتا ہے؟ اس حالت میں اگر اسے کوئی کسی اور کام کے لیے بلائے، تو وہ کہے گا کہ میں مصروف ہوں اور نماز ظہر پڑھنے لگا ہوں ۔ اگر کوئی اسے نماز کی طرف جاتے ہوئے پوچھے، کہاں جا رہے ہو؟ تو کہے گا کہ میں با جماعت نماز پڑھنے جا رہا ہوں ۔ جانتے بوجھتے ایک عقل مند خود کو شک میں کیسے ڈال سکتا ہے؟‘‘ (إغاثۃ اللّھفان في مصاید الشّیطان : 1/137-136) نیز فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، تو اللہ اکبر کہا۔ اس سے قبل |