Maktaba Wahhabi

350 - 354
وجہری طور پر نیت کے الفا ظ ادا کرنا کسی مسلمان سے ثابت نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے ایسا حکم دینا یا ایسا کوئی کام کرناثابت نہیں ۔یہ طیہے کہ زبانی نیت کی کوئی حیثیت ہو تی تو اسے نقل کرنے پر بہت زیادہ اہتمام اور داعیہ ہوتا۔ اہل تواتر کو نہ شریعت نے اجازت دی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی واقعہ ثابت ہواہے کہ کسی متواتر کے نقل کو چھپا لیں ، جب اسے کسی نے بھی نقل نہیں کیا، تو معلوم ہوا کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ : 22/237-236) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں : ’’نیت کسی کام پر پختہ عزم کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے۔ زبان سے اس کا تعلق نہیں ۔ تب ہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا آپ کے صحابہ سے کسی بھی کام میں الفاظ سے نیت کرنا ثابت نہیں ، بلکہ ہم آج تک اس کا ذکر ہی نہیں سنا۔ وضو اور نماز کے شروع میں جو الفاظ گھڑ لئے گئے ہیں ، شیطان نے انہیں وسوسے کا شکار لوگوں کے لیے میدان کار زار بنایا ہے۔ وہ انہیں ثواب کی امید دلاتا ہے اور عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اور اسے صحیح طور پر ادا کرنے کی طلب ذہن میں ڈال دیتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان وسوسوں کا شکار آدمی ایسے الفاظ کو بار بار دہراتا ہے اور خود پر سختی کرتا ہے۔ جب کہ یہ نماز کاحصہ نہیں ہے۔ نیت کسی کام کے ارادے کو کہتے ہیں ، کسی کام کا پختہ ارادہ کرنے والے کو ناوی (نیت کرنے والا) بھی کہتے ہیں ۔ ارادے کو نیت سے جدا نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ارادہ نیت کی حقیقت میں داخل ہے۔ جو وضو کے
Flag Counter