Maktaba Wahhabi

344 - 354
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں : ’’بعض صوفیا نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفرد کلمہ مثلا ’’اللہ، اللہ‘‘ کا ورد کرنا جملہ مفید یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ وغیرہ کے ورد سے بھی افضل ہے۔ یہ فاسد ہے اور اس کی بنیاد بھی غلط ہے۔ صرف لفظ اللہ کا ورد مشروع نہیں ، نہ ہی یہ کلام مفید ہے، بل کہ یہ کلام ہے ہی نہیں ، مدح ہے نہ تعظیم۔ یہ نہ ایمان ہے، نہ ثواب کا کام اور نہ ہی بندہ اس سے دائرہ میں ہی داخل ہو تا ہے۔ اگر ایک کافر ساری عمر بھی اللہ اللہ کرتا رہے، تب بھی وہ مسلمان نہیں بن سکتا، چہ جائے کہ اسے ذکر شمار کیا جائے یا افضل الذکر کہا جائے۔ بعض نے تو مبالغہ کرتے ہوئے اس حد تک کہہ دیا ہے کہ اسم ضمیر کے ذکر کرنا، اسم ظاہر سے ذکر کرنے سے افضل ہے، بہ الفاظ دیگر ہو ہو کی رٹ لگانا اللہ اللہ کا ذکر کرنے سے افضل ہے۔ یہ سب ہوس اور باطل خیالات کا پلندا ہے، جو انسان کو طرح طرح کی گمراہیوں کا منہ دکھاتا ہے۔ یہ اس غلط بنیاد کا رد ہوا۔ اب بعض لوگ اس فرمان باری تعالیٰ سے بھی استدلال کرتے ہیں : ﴿قُلِ اللّٰہُ﴾ (الأنعام : 91) ’’فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے۔‘‘ کہ جی یہ نام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ اللہ کہیے۔ یہ کم فہمی ہے، کیوں کہ یہاں لفظ اللہ جواب استفہام کے طور پر وارد ہوا ہے۔ استفہام یہ ہے: ﴿قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِي جَائَ بِہٖ مُوسٰی نُورًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ﴾(الأنعام : 91) ’’پوچھیے کہ موسی علیہ السلام پر نور و ہدایت پر مبنی کتاب نازل کرنے والی ذات کون
Flag Counter