وَأَہْلِ الِْاتِّحَادِ کَمَا قَدْ بُسِطَ الْکَلَامُ عَلَیْہِ فِي غَیْرِ ہٰذَا الْمَوْضِعِ، وَجِمَاعُ الدِّینِ أَصْلَانِ أَلَّا نَعْبُدَ إلَّا اللّٰہَ وَلَا نَعْبُدَہٗ إلَّا بِمَا شَرَعَ لَا نَعْبُدُہٗ بِالْبِدَعِ کَمَا قَالَ تَعَالٰی : ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَائَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ أَحَدًا﴾ ۔ ’’مقصد یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں ذکر الٰہی جملہ تامہ، جسے کلام بھی کہتے ہیں ، جس کا واحد کلمہ ہے، کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ دلوں کے نفع مند، اجر و ثواب، قرب الٰہی، اللہ کی معرفت، محبت اور خشیت کے علاوہ کئی ایک فوائد و ثمرات کا موجب ہے۔ ذکر میں صرف لفظ اللہ یا اس کی ضمیر پر اکتفا کرنے کا ذکر خاص اور ذکر العارفین ہونا تو کجا، اس کی دین میں کوئی اصل نہیں ، بل کہ بدعات و خرافات اور الحاد اور وحدت الوجود جیسے گمراہ کن اعتقادات کا ذریعہ ہے، اس پر تفصیلی بحث کسی دوسری جگہ گزر چکی ہے۔ پورے دین کی بنیاد دو چیزیں ہیں ۔ ایک یہ کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے، دوسری کہ عبادت وہی ہے، جسے شریعت مقرر کرے، بدعات کو عبادت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَائَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ أَحَدًا﴾ ’’ جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو، نیک اعمال کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے۔‘‘ (مجموع الفتاوٰی : 5/216) |