کو۔ ﴿فِي خَوْضِہِمْ یَلْعَبُونَ) (الانعام : 91) ’’اپنی سوچوں میں کھیلتا ہوا۔‘‘ سابقہ بحث سے امام سیبویہ اور دیگر ائمہ نحو کی بات سمجھنے میں مدد ملے گی : عرب کی عادت ہے کہ وہ قول کے ساتھ کلام تام ، جملہ اسمیہ یا فعلیہ ہی حکایت کرتے ہیں ۔ تب ہی تو إِنَّ کے بعد مکسور پڑھتے ہیں ۔لہٰذا باب قول کے بعد اسم مفرد نہیں آ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی اسم مفرد کے ساتھ ذکر کرنے کا حکم دیا، نہ مسلمانوں کے لیے اسے مشروع کیا ۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اسم مفرد ایمان کا فائدہ نہیں دیتا۔ کسی عبادت میں بھی اس کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہ اندازِ گفتگو ہی ہے۔‘‘ (الفتاویٰ الکبرٰی : 5/212-210، مجموع الفتاوٰی : 10/226) نیز فرماتے ہیں : اَلْمَقْصُودُ ہُنَا أَنَّ الْمَشْرُوعَ فِي ذِکْرِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ ہُوَ ذِکْرُہٗ بِجُمْلَۃٍ تَامَّۃٍ وَّہُوَ الْمُسَمّٰی بِالْکَلَامِ وَالْوَاحِدُ مِنْہُ بِالْکَلِمَۃِ وَہُوَ الَّذِي یَنْفَعُ الْقُلُوبَ وَیَحْصُلُ بِہِ الثَّوَابُ وَالْـأَجْرُ وَالْقُرْبُ إِلَی اللّٰہِ وَمَعْرِفَتُہٗ وَمَحَبَّتُہٗ وَخَشْیَتُہٗ وَغَیْرُ ذٰلِکَ مِنَ الْمَطَالِبِ الْعَالِیَۃِ وَالْمَقَاصِدِ السَّامِیَۃِ، وَأَمَّا الِْاقْتِصَارُ عَلَی الِْاسْمِ الْمُفْرَدِ مُظْہَرًا أَوْ مُضْمَرًا فَلَا أَصْلَ لَہٗ فَضْلًا عَنْ أَنْ یَّکُونَ مِنْ ذِکْرِ الْخَاصَّۃِ وَالْعَارِفِینَ بَلْ ہُوَ وَسِیلَۃٌ إِلٰی أَنْوَاعٍ مِّنَ الْبِدَعِ وَالضَّلَالَاتِ وَذَرِیعَۃٌ إِلٰی تَصَوُّرَاتِ أَحْوَالٍ فَاسِدَۃٍ مِّنْ أَحْوَالِ أَہْلِ الْإِلْحَادِ |